کارنامہ یا ایک نئی جنگ کی شروعات 126

قبضہ گروپ اور پاکستان؟

پاکستان بالخصوص اور اس پر بسنے والے 24 کروڑ عوام بالعموم فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکے ہیں جس کی وجہ سے قبضہ مافیا کی کانپیں ٹانگ رہی ہیں، وہ قبضہ مافیا جو پچھلے 75 برسوں سے اقتدار پر قبضہ کرتا چلا آرہا ہے اور ملکی وسائل کو سفید ہاتھی بن کر لوٹ رہا ہے وہ قبضہ مافیا جس کا حکومتوں کو بنانا اور اسے ختم کرنا ایک محبوب مشغلہ بن گیا ہے اور کسی بھی حکومت میں اپنی عدم شمولیت کو وہ بھی ڈیزل کی طرح سے توہین خیال کرتا ہے۔ اسی قبضہ مافیا کو عمران خان سابق وزیر اعظم اور عمران ریاض اینکر لاہور مںی بیٹھے مسٹر ایکس سے یاد کرتے ہیں جن کا کام بیساکھیوں پر کھڑی اس امپورٹڈ حکومت کو ضمنی الیکشن میں دھاندلا کروا کر کامیاب کروانا ہے چاہے اس کے لئے سرکاری وسائل کا کس طرح سے بھی استعمال کیوں نہ کرنا پڑے۔ مسٹر ایکس ہی خود کو بے نقاب کرنے والے صحافیوں کے خلاف قانون کو پولسی کو اپنی لونڈی کی طرح سے استعمال کرتے رہے جن کا شکار پہلے ایاز امیر اس کے بعد عمران ریاض خان اور پھر سمیع ابراہیم ہوئے۔
عمران خان نے جس طرح سے شبانہ روز جلسے اور تقریریں کرکے عوام کو اس قبضہ مافیا کے بارے میں بتلایا لوگوں کے دلوں سے ان کا خوف نکالا یقیناً وہ قابل تعریف اور قابل ستائش ہے جس کی وجہ سے یہ قبضہ گروپ اب چلیدہ کارتوس بن چکے ہیں ان کی حالت نمائشی سانپوں والی بن چکی ہے جس سے اب بچے کھیل سکیں گے۔ اب یہ کسی کو ڈسنے کے قابل نہیں رہے اس قبضہ مافیا کے ہوتے ہوئے پاکستان کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ہی پاکستان کا لہو پینے اور اسے کھوکھلا کرنے کے لئے کافی ہے۔ بلدیاتی انتخابات اور لاہور پنجاب کے ضمنی الیکشن سے قبل موسلادھار اور طوفانی بارشوں کا ہونا بھی ایک طرہ سے قدرت کا اس قبضہ گروپ کے خلاف انتقام ہے کہ کس طرح سے قدرت نے طوفانی بارشوں کی وجہس ے انہیں اور ان کی چور بازاری حرام خوری کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے اب اس کے باوجود بھی اگر کراچی یا اندرون سندھ کے بدلیاتی انتخابات میں پی پی پی کامیاب ہوتی ہے تو اس کا صاف اور واضح طور پر یہ ہی مطلب ہے کہ یا تو سندھ اور کراچی کے رہنے والے معذرت کے ساتھ سب کے سب پاگل ہیں ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے یا پھر انتخابات کے نتائج دھاندلی نہیں بلکہ دھاندلے کا شاخسانہ ہیں یہ ہی حالت پنجاب کے ضمنی الیکشن اور ان کے نتائج کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔
ویسے قبضہ گروپ کو بھی ملک کی بھپری ہوئی عوام کو دیکھ کر یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ ان کا کھیل ختم ہو گیا، ملکی عوام ان کی اصلیت سے واقف ہو چکے ہیں ان کا مکروہ اور گناہ آلود چہرہ ملکی عوام کے سامنے آچکا ہے، وہ ملکی عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں اور اب ان کی نظرں میں ان کی وہ عزت نہیں رہی جو پہلے کبھی ہوا کرتی تھی اور وہ اس کا ذمہ دار ملک کی اندھی لنگڑی لولی عوام کو نہیں بلکہ عمران خان کو ٹھہراتے ہیں اس لئی وہ انہیں غصے سے فتنہ خان کہتے ہیں ان کا بھی اب یہ ماننا ہے کہ ملکی عوام کے دلوں سے ان کا خوف و دبدبہ ختم ہو گیا ہے جس کا زندہ ثبوت عوامی مقامات پر لوگوں کا وفاقی وزراءاور دوسرے وردی والوں کو چور چور اور ڈاکو ڈاکو کے القابات سے پکارنا ہے۔ یہ کوئی معمولی تبدیلی نہیں، بہت بڑی تبدیلی ہے اور اس تبدیلی کی صورت میں اب قبضہ گروپ کو اپنے لاڈلوں کی حکومتیں بنانا اور خود سے بغاوت کرنے والوں کے حکومتوں کو گرانا اب بہت مشکل بلکہ نا ممکن ہو جائے گا اس لئے لاہور میں بیٹھے مسٹر ایکس وائی زیڈ کو ضمنی الیکشن کے مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے بہت محنت کرنا پڑ رہی ہے ان کا سیدھا سادا کام عمران خان کے ان طوفانی جلسوں اور اس میں لوگوں کی لاکھوں کی تعداد میں جانے نے انتہائی مشکل بنا دیا ہے اب وہ جو بھی کچھ کریں گے وہ دھاندلے کا ایل چلتا پھرتا اشتہار بن جائے گا۔ اس ضمنی الیکشن نے ملکی اداروں کی ساکھ اور ان کی شفافیت داﺅ پر لگا دی ہے لیکن اس کے باوجود چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں، کے مصداق کچھ نہ کچھ تو وہ کریں گے؟
آخر ان کی اپنی بقاءکا بھی تو معاملہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں