امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے کارنامے 351

قدم بڑھاﺅ پاکستان ہم تمہارے ساتھ ہیں

پاکستان اس وقت درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، وہ اس کھائی سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا جو ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی وجہ سے ریاست کی مقدر بن چکی تھی اور کسی کے خیال و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پچاس برسوں سے کھائی میں دھنستا ہوا ملک اس طرح سے چند ماہ کی جہد کے بعد اس سے نکل جائے گا اس لئے اس بدلتی صورتحال سے ملک دشمن قوتیں حیران ہونے سے زیادہ پریشان ہیں اس لئے کہ یہ تبدیلی ان کے خوابوں کے چکنا چور ہونے کا باعث بن رہی ہے وہ پچھلے ڈیڑھ دو سالوں سے مختلف حربوں کے ذریعے ریاست کے خلاف تحریک چلانے کی کوشش کرتے رہے مگر اس میں انہیں کوئی خاطرخواہ کامیابی نہیں مل سکی، وہ 42 سال قبل چلائی جانے والی نو ستاروں کی تحریک کی طرح سے ملک گیر سطح پر تحریک چلانے کے خواہش مند ہیں ان تحریکوں کے دوران پاکستان کے موثر ترین میڈیا ہاﺅسز نے بڑے فراخدلی سے اپنے فرائض انجام دیئے مگر ان تحریکوں میں وہ اس طرح کے مومنٹم پیدا نہ کرسکے جس طرح کی مومنٹم مسٹر بھٹو کی مضبوط حکومت کے خلاف پیدا کرکے اسے ختم کردیا گیا تھا حالانکہ ان موجودہ تحریکوں میں 42 سال قبل چلائی جانے والے نو ستاروں کی تحریک کے مقابلے میں زیادہ بڑی انویستمنٹ کی گئی اور میڈیا نے جس طرح سے ان تحریکوں کو رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کیا اس کے نتیجے میں تو عمران خان کی اس حکومت کو ایک بار نہیں بلکہ بار بار ختم ہو جانا چاہئے تھا اور ملک کا تو کوئی حال ہی نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن اتنی بڑی جدوجہد کے بعد بھی نہ صرف حکومت اپنی جگہ قائم اور دائم ہے بلکہ ملک بھی آگے بڑھ رہا ہے، ملکی معیشت بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے لیکن ایجنڈا نواز میڈیا اس طرح کی خبریں دے کر ملکی عوام کے حوصلے بڑھانے کے بجائے انہیں مزید بڑھنے والی مہنگائی کی خبریں چلا کر ان میں مایوسی بڑھا رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر کی جانے والی اس بلیک میلنگ کا مقصد حکومت کے اس خارجہ پالیسی کو بدلوانا ہے جس سے ملک کھائی سے نکلنے کے بعد آگے بڑھ رہا ہے اس طرح کی بلیک میلنگ کرنے والے ملک کے خیرخواہ تو نہیں ہو سکتے اور اس طرح کے عناصر کی سہولت کار بننے والی میڈیا کے بارے میں کچھ لکھنے سے بہتر ہے کہ پڑھنے والے خود ہی ان کے بارے میں فیصلہ کر لیں کہ وہ کون ہیں؟ آج کل ملک میں بن بادل برسات کی طرح سے بغیر کسی الیکشن کے ہی تحریکوں اور جلسہ جلوس کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ خودبخود تو نہیں ہو رہا ہے۔ کہیں سے تو ان کی چابی بھری گئی ہے جس کے بعد سے یہ کھلونوں کی طرح سے اوچھل کود کررہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ چابی بھرنے والے کون ہیں؟ اسے بھی میں عوام پر چھوڑ دیتا ہوں لیکن وہ جو بھی ہیں وہ پاکستان کے دشمن ہیں اور وہ یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان کھائی سے نکل کر دوبارہ ترقی کی شاہراہ پر دوڑنا شروع کردے اس لئے وہ اس طرح کی تحریکوں کے ذریعے اس حکومت کو ہی گرانا چاہتے ہیں جو چین کی مدد سے ترقی کررہا ہے۔ اس لئے ملک میں کبھی کوئی ایک تحریک کبھی کوئی دوسری اور کبھی کوئی تیسری تحریک شروع کروا دی جاتی ہے جس طرح سے ان دنوں طلبا تنظیموں کو خاص مقصد کے تحت متحرک کیا جارہا ہے اور میڈیا کو بھی ان طلباءتنظیموں کی تحریکوں میں شامل کروایا جارہا ہے۔ ایشیا سرخ ہے کا نعرہ دوبارہ سے زندہ کیا جارہا ہے جب کہ مسلمانوں کے نزدیک تو ایشیا سرخ کے بجائے سبز ہے اور ہم اسے سبز ہی رہنے دیں گے۔ کسی کے بہکاوے میں آکر ان کے آلہ کار بنتے ہوئے اپنے گلستاں کو راکھ کا ڈھیر نہیں بنائیں گے۔ ان دنوں سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا کے ذریعے ان طلباءتنظیموں کے تحریکوں کے حوالے سے مومنٹم بنانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اس میں بھی انہیں منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ اس لئے کہ ملکی عوام اب 42 سالہ پرانے عوام نہ رہے اب سوشل میڈیا کی مہربانی سے عوام بہت باشعور ہو چکی ہے وہ دوست اور دشمنوں کو اچھی طرح سے جانتی ہے اس لئے ان پر میڈیا کی اس للکار کا کوئی اثر نہیں ہو رہا اور نہ ہی لوگ ان میڈیا والوں کی اطلاعات ان کے تجزیے اور تبصروں کو کوئی خاص اہمیت دیتے ہیں۔ عام لوگوں کا کہنا ہے کہ میڈیا والوں نے بھی پیٹ بھرنے کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے اس لئے وہ ان کے گمراہ کن پروپیگنڈے کا شکار نہیں ہو رہے۔ میڈیا مسلسل دروغ گوئی سے کام لے کر اداروں میں تصادم کرانے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن فی الحال ناکامی ہی ان کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ اس موجودہ صورتحال میں اغیار کے ہاتھوں ہماری میڈیا کا ایک بڑا حصہ اور سیاسی پارٹیاں پوری طرح سے بے نقاب ہو چکی ہیں۔ ملکی حساس ادارے تو پہلے ہی ان کی اصلیت سے واقف تھے لیکن عوام پر ان کی اصلیت اب پوری طرح سے عیاں ہو چکی ہے اور انہیں اپنوں میں چھپے غیروں کا پتہ چل گیا۔ ضروری نہیں کہ سارے پڑھنے والے اس بات سے اتفاق کریں مگر حقیقت وہی ہے جو لکھ رہا ہوں مجھے ملکی پالیسی سازوں سے اتنا کہنا ہے کہ وہ وہی کام کریں جس کا انہوں نے حلف اٹھایا ہے ان کا حلف ملک سے وفاداری کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ اس لئے اپنے ملک کی اس خارجہ پالیسی پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں جو ملک کو اندھیروں سے اُجالے میں لانے کا باعث بن رہا ہے جب کہ ملکی عوام میں مایوسی اور افراتفری پھیلانے والے عناصر کے خلاف ملک کے مروجہ قانون کے تحت کارروائی کی جائے وہ چاہے سیاستدان ہو طلباءرہنما ہو یا کوئی صحافی ہو کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ سب سے پہلے ملک ہے اس کے بعد جمہوریت اور آزادی اظہار رائے ہے اس لئے ملک کی سلامتی کے معاملے میں بے رحمی کو اپنائیں، کسی کو بھی ملک سے کھیلنے کی اجازت نہ دیں اس لئے کہ یہ ملک ہی ہماری پہچان ہے اور پہچان مٹنے سے انسان معاشرے میں گالی بن جاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں