کارنامہ یا ایک نئی جنگ کی شروعات 347

قیامت سے پہلے۔۔۔ کرونا۔۔۔

قیامت سے پہلے قیامت ہے لوگوں۔۔۔ والی صورت حال اس گھڑی جانے والی ”کرونا وائرس“ نے پیدا کردی ہے۔ آج پوری دنیا ہی اس کرونا وائرس کی زد میں آچکی ہے بقول اس شعر کہ
دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
کرونا وائرس نے کچھ اس طرح کی صورت اختیار کر لی ہے، کچھ اس طرح سے دنیا میں تباہی مچا دی ہے کہ انسانوں کو بالخصوص اور انسانیت کو بالعموم تقسیم کرکے رکھ دیا۔ انسانوں کی اتنی بڑی تقسیم اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی اس وائرس نے ایک شخص کو دوسرے سے دور کرنے اور اسے بیگانہ بنانے پر مجبور کردیا۔ کرونا وائرس نے رشتوں میں دوریا پیدا کردیں، خالق اور مخلوق میں فاصلے بڑھا دیئے، عبادت گاہوں، درس گاہوں اور مہ کدوں کو ویران کرکے رکھ دیا۔ کرونا وائرس کا نام ہی گوشہ نشین وائرس ہونا چاہئے تھا اس لئے کہ اس نے لوگوں کو موت کے خوف سے گوشہ نشینی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ مشرق ہو یامغرب ہر جگہ اسی وائرس اور اس سے ہونے والی تباہی کا چرچا ہے۔ جب سے کرونا وائرس کے ہاتھوں لوگوں کی ہلاکت کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس وقت سے افواہ ساز فیکٹریاں بھی حرکت میں آچکی ہیں، طرح طرح کی افواہیں اس کرونا وائرس سے متعلق مارکیٹ میں زیر گردش ہیں جس میں سے ایک یہ کہ یہ وائرس اکنامک وار کی ایک طرح سے ابتداءہے اور اس وائرس کا استعمال چین کے بڑھتے ہوئے معاشی کاروبار کو روکنے کے لئے کیا گیا اسی وجہ سے اس کرونا وائرس کا شکار بھی سب سے پہلے چین ہوا۔ جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہلاک ہو گئے لیکن جس رفتار سے یہ وائرس چین میں پھیلا اسی برق رفتاری سے چین نے اس پر قابو بھی پالیا اور اب اس وائرس کا پھیلاﺅ خود امریکہ اور مغرب کے علاوہ جنوبی ایشیا کی جانب بڑھ گیا ہے، کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ دوسروں کے لئے گڑھا کھودنے والے اب خود اس میں گر رہے ہیں، خدا جانے اس میں کہاں تک صداقت ہے؟ لیکن کچھ تو ہے جس کی پردہ داری کی جارہی ہے، پاکستان، ہندوستان، افغانستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں ابھی تک کرونا وائرس کا چرچا تباہی کے حوالے سے نہیں ہوا جتنا اس کا خوف پھیل گیا ہے۔ لوگوں نے غذائی اشیا کی ذخیرہ اندوزی اس طرح سے کرلی ہے کہ شاید ہی انہیں دوبارہ سے کھانے کو کچھ ملے۔ کرونا وائرس نے لوگوں کے ایمان کا پول ہی کھول کر رکھ دیا۔ وہ مسجدیں جو کبھی جنگ اور گولہ بارود کے دھوﺅں سے بند نہ کی گئی اور نہ ہی ویرانی کو ان کے قریب آنے دیا گیا ان ہی مسجدوں کو اس کرونا وائرس کے خوف نے قرون وسطیٰ کی عمارتوں میں تبدیل کردیا۔ اس طرح کی صورت حال کو دیکھ کر مجھے اس کرونا وائرس کے دہشت پر رشک آنے کے بجائے اس سے گھبرا کر اپنے ایمان سے متزلزل ہونے والوں کی عقل پر رونا آرہا ہے۔ مانا کہ کرونا وائرس بہت ہی خطرناک اور جان لیوا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ توپ کا گولہ ہو کہ لگتے ہی لوگوں کے جسم کے چیتھڑے اڑ جائیں گے۔ بے شک اس سے احتیاط کرنے کی ضرورت ہے اور اس احتیاط میں بڑے ہجوم کا حصہ بننے سے منع کیا گیا ہے اگر آپ کو نزلہ زکام یا کھانسی ہو جائے تو خود کو گھر تک محدود کرکے اپنا علاج کریں۔ اور اس کے بعد دوسروں کے سامنے آئیں اسی طرح سے نزلہ اور زکام میں مبتلا دوسرے لوگوں کو دیکھتے ہی ان سے دور ہو جائیں۔ کرونا وائرس کی پناہ گاہ ہی نزلہ اور زکام ہے اسی کے ذریعے وہ کسی کے اندر بھی داخل ہو کر بسیرا کر لیتا ہے اور پھر جس جسم کے اندر قوت مدافعت زیادہ ہوتی ہے ان کے وہائٹ بلڈ کا رپسول لڑ جھگڑ کر کرونا وائرس کو بدن سے نکال باہر کر دیتا ہے۔ اسی وجہ سے کمزور اور ضعیف لوگ زیادہ تر کرونا وائرس کا شکار ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اس لئے سب کو اسی طرح سے احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے زیادہ اس کی اور کوئی حقیقت نہیں، لوگوں کو حکومتی احکامات کی پروازہ کئے بغیر خود اپنے طور پر ہی خود کو گھروں کے اندر محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ یہ وبا پھیل چکی ہے۔ جب تک اس کا کوئی توڑ نہیں نکلتا اس وقت تک ہر کسی کو اپنی زندگی بچانے کے لئے احتیاط کرنا ہو گا۔ وزیر اعظم عمران خان کا کورونا وائرس سے متعلق قوم سے خطاب تو بہت بہتر تھا اوراپنوں نے یہ کہہ کر لاک ڈاﺅن کی مخالفت کی تھی کہ اس سے دیہاڑی والے مزدور بھوک کی وجہ سے کرونا وائرس کے حملے سے پہلے ہی ہلاک ہو جائیں گے۔ اس لئے وہ لاک ڈاﺅن نہیں کریں گے اب جب ایک ایک کرکے صوبوں نے اپنے طور پر صوبوں کو دو دو ہفتے تک لاک ڈاﺅن کردیا تو وزیر اعظم نے دیہاڑی دار مزدوروں کے لئے 3 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دینے کا اعلان کیا۔ یہ کارنامہ سر انجام دینے سے پہلے وزیر اعظم نے یہ نہ سوچا کہ یہ تین ہزار روپے کی رقم تو بالکل اسی طرح سے ہے کہ جیسے کسی بھوکے اونٹ کے منہ میں کسی نے زیرہ کا ایک دانہ رکھ دیا ہو۔ تین ہزار روپے سے تو وہ دیہاڑی دار مزدور ایک ہفتہ بھی گھر نہیں چلا سکتا اس سے اچھا مذاق اور کیا ہو سکت اہے؟ جو پاکستان کے وزیر اعظم نے کیا۔ اس سے تو بہتر تھا کہ وہ یہ اعلان ہی نہ کرتے اس طرح کے اعلان نے ان دیہاڑی دار مزدوروں کو ان کی اوقات کا احساس دلا دیا جو غلط ہے اور یہ ان مزدوروں کے عزت نفس پر ایک طرح سے حملہ ہے اس لئے وزیر اعظم عمران خان کو اپنے اس حکم پر غور کرنا چاہئے ایک نئے اور بدلتے ہوئے پاکستان سے سب سے زیادہ غریب لوگوں ان چھابڑی والوں اور طلباءنے امیدیں لگا رکھی ہیں اس لئے ان کی امیدوں کو توڑنے سے گریزکرنا چاہئے جب کہ قوم کو وزیر اعظم کے کرونا کی روک تھام اور اس سے خود کو بچانے کی ہدایات پر عمل کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ ملک کرونا وائرس کی وجہ سے اس وقت مشکل میں ہے اور مشکل کا مقابلہ سب کو مل کر کرنا ہو گا اسی میں ملک اور اس کے رہنے والوں کی فلاح مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں