کارنامہ یا ایک نئی جنگ کی شروعات 283

مسلم لیگ ن کی باغیانہ سیاست

کیا مسلم لیگ ن روز بہ روز بند گلی میں داخل ہو رہی ہے۔۔۔؟ کیا میاں شہباز شریف نے بڑے بھائی سے راستے جدا کر لئے ہیں۔۔۔؟ کیا وہ اپنے مرضی سے چوہدری نثار کے مشورے پر جیل گئے ہیں، یہ وہ سوالات ہیں جو ان دنوں مسلم لیگ ن کے چھوٹے ورکروں سے لے کر پارٹی کے بڑے سرکردہ رہنماﺅں میں زیر بحث ہیں جب کہ مسلم لیگ ن کے ایک باغی رکن صوبائی اسمبلی پنجاب نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ میاں نواز شریف کو اسرائیل سے ڈکٹیشن ملتی ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنی توپوں کا رخ پاکستان کے حساس اداروں کی جانب موڑ دیا ہے۔
میری تو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آخر پاکستان کی یہ سیاست کس رخ پر کس ڈگر پر چل رہی ہے؟ یہاں پر تو جیو اور جینے دو کی پالیسی کے بجائے نہ کھائیں گے اور نہ کھانے دیں گے کی پالیسی پر ہی سیاست کی جارہی ہے جو کہ وطن عزیز کی سلامتی اور بقاءکے لئے کسی بھی طرح سے زہر قاتل سے کم نہیں۔ میں نہ تو پی ٹی آئی کا کوئی وفادار اور نہ ہی مسلم لیگ ن کا کوئی مخالف۔۔۔ میں صرف اور صرف ایک پاکستانی ہوں اور پاکستانی ہونے کے ناطے جو دیکھتا ہوں، جو سنتا ہوں اور جو سمجھتا ہوں، اُسے لکھتا ہی ہوں اور اسے بیان بھی کرتا ہوں، مسلم لیگ ن کی موجودہ سیاست کو میں اب الطاف حسین کی سیاست کے تناظر میں دیکھ رہا ہوں۔ الطاف حسین جس خطرناک ڈگر پر چل پڑے تھے بالکل اسی راہ کے مسافر اب نواز شریف بھی ہمیں نظر آرہے ہیں۔ وہ بھی ویڈیو لنک کے ذریعے تقریروں تک محدود رہنے والے خودساختہ جلاوطن سیاستدان بن گئے ہیں۔ اس سے زیادہ اب ان کی اور کوئی اہمیت نہیں رہی۔ ایسا کرکے وہ نیلسن منڈیلا نہیں بن سکیں گے بلکہ الطاف حسین کی طرح سے آہستہ آہستہ دیوار سے لگتے ہوئے ماضی کا حصہ ضرور بن جائیں گے اب اس سے زیادہ دکھ اور افسوس کی اور کیا بات ہو گی کہ موصوف اپنی والدہ کے لندن میں ہونے والے وفات کے بعد میت کے ساتھ پاکستان نہیں آرہے ہیں تاکہ آخری رسومات میں شامل ہو سکیں ان کے پاکستان جانے میں کوئی قانونی قدغن نہیں، وہ جب چاہیں پاکستان آسکتے ہیں لیکن ان کا نہ آنا ان کا اپنا ذاتی فیصلہ ہے۔ ممکن ہے وہ خود بھی آنا چاہتے ہوں لیکن خود ان کے اپنے جن کی پوری سیاست ہی نواز شریف کے پاکستان سے باہر رہنے کے گرد گھوم رہی ہے، وہی لوگ اس وقت نہ صرف نواز شریف کو لندن رہنے پر مجبور کررہے ہیں بلکہ انہیں الطاف حسین کے نقش قدم پر چلنے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں کہ اسی راستے پر چل کر وہ ملکی اداروں کو بلیک میل کرکے ان سے اپنا کھویا ہوا اقتدار واپس حاصل کر سکیں گے۔ ایسا کرنے والے ایسا سوچنے والے نواز شریف کی بیٹی مریم میں ایک اور شیخ حسینہ واجد کو دیکھ رہے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اگر وہ مریم کو پاکستان کی حکمرانی دلوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے سارے کے سارے مسائل جو پاکستان کے اداروں کے وجہ سے اٹکے ہوئے ہیں وہ سب کے سب حل ہو جائیں گے اسی سوچ کے نتیجے میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے ایک طرف سیاسی صورتحال کو ملک دشمن قوتیں کنٹرول کررہی ہیں تو دوسری جانب ”را“ نے کراچی سمیت پورے ملک میں افغان ایجنسی این ڈی ایف کے ذریعے دہشت گردی کی وارداتوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے جن کا ہدف صرف اور صرف سی پیک ہے وہ سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لئے مختلف طرز کی دہشت گردی کی وارداتیں کروا رہے ہیں جن میں فرقہ وارانہ وارداتیں بھی شامل ہیں جنہیں ناکام بنانے کے لئے کراچی پولیس پہلے ہی متحرک ہو چکی ہے اور درجنوں کے حساب سے ”را“ کے دہشت گرد اور ان کے سہولت کار پولیس کے ہاتھوں پکڑے جا چکے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے اس طرح کے باغیانہ سیاست کے نتیجے میں میاں شہباز شریف کا کسی بھی طرح سے انڈر گراﺅنڈ ہونا ایک فطری امر تھا جس کے لئے انہوں نے اپنے خلاف درج نیب کے ان مقدمات کا سہارا لیا جس میں وہ ضمانت پر رہا تھے اور خود ہی ضمانت کے لئے مزید کوششیں نہ کرنے کی صورت میں وہ جیل چلے گئے۔ اس لئے کہ ایک تو وہ خود اپنی منہ چھڑی بھتیجی کے منہ نہیں لگنا چاہتے تھے اور دوسرے وہ اپنے پارٹی کے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی محب وطن واقع ہوئے ہیں اسی وجہ سے وہ ملکی اداروں سے بلاوجہ الجھنے کے خلاف تھے یہ ہی وجہ ہے کہ اس طرح کی خوفناک سیاست سے پہلے ہی شہباز شریف ٹیکنیکل طریقے سے ضمانت کے منسوخی کی صورت میں گرفتار کرکے جیل بھجوا دیئے گئے اب اگر اس کو اس طرح سے کہیں کہ شہباز شریف خود جیل گئے ہیں تو اس پر کوئی بھی یقین نہیں کرے گا مگر تجزیہ نگاروں کی غالب اکثریت اس پر متفق ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ ن کی باغیانہ سیاست سے خود کو بچانے کے لئے جیل کا انتخاب کیا ہے اور دور سے پارٹی کی سیاست دیکھ رہے ہیں۔ اب انہیں بیٹے حمزہ سمیت 5 روز کے پے رول پر رہا کردیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی والدہ کی آخری رسومات میں شریک ہو سکیں۔
صدر پاکستان، وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف پہلے ہی نواز شریف کی والدہ کے رحلت پر ان سے تعزیت کر چکے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ اپوزیشن کے جلوس جلسے اور دوسری احتجاجی تحریکوں کے دوران امن و امان کی صورت حال کو کنٹرول کرنے پر توجہ دیں اس لئے کہ بھارتی تخریب کار ایجنسی ”را“ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے سرگرم عمل ہے اس لئے ان کے ارادوں کو ناکام بنانے کے لئے حساس اداروں کو چوکنا رہنا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں