نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 90

ملک میں افراتفری کا ذمہ دار کون؟

ملک میں اس وقت وارنٹ کے اجراءاور گرفتاری کا کھیل زور و شور سے جاری ہے۔ وارنٹ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے مخالفین کو صرف گرفتاری اور اپنی رہائی کے لئے جدوجہد کرنے تک ہی محدود کردیا گیا ہے۔ وارنٹوی اور گرفتاری کے ذریعہ اپنے مخالف عمران خان کے قتل کی سازش پر عمل درآمد کروانے کی کوششیں کی جارہی ہے۔ اپنے اس ظالمانہ ہتھکنڈے کے لئے کس طرح سے عدالت اور اس میں براجمان انصاف کے علمبرداروں کا کاندھا استعمال کیا جارہا ہے وہ ساری دنیا کے سامنے ہے کہ کس طرح سے چابی والے کھلونے کی طرح سے ملک بھر کی چھوٹی بڑی عدالتیں اس وقت عمران خان اور ان کی پارٹی کے خلاف متحرک ہو چکی ہیں۔ پوری پاکستانی قوم یہ تماشا اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ کون اس سارے نظام کو کنٹرول کررہا ہے۔ کون ”گاڈ فادر“ اور ”سسلین مافیا“ بن کر پاکستان کے انصاف کے نظام کو اپنے انگلی کے اشارے پر چلا رہا ہے۔ پہلے تو ایک بٹن دبا کر پورے ملک کے تھانوں میں عمران خان اور اعظم سواٹی کے خلاف ایک ہی تحریر ایک ہی دفعہ کی ایف آئی آر درج کروائی جاتی تھی اب ایک ہی بٹن دبا کر ساری عدالتوں سے عمران خان کے وارنٹ جاری کروائے جارہے ہیں اس ساری ایکسر سائیز کا مقصد عمران خان کو پاکستان کی پھنسی ہوئی اور مظلوم عوام کا مقدمہ لڑنے سے روکنا اور پاکستانی نظام کو پچھلے 75 سالوں سے ہائی جیک کرنے والوں کو بے نقاب کرنے سے روکنا ہے۔ ایسا کرنے والے یا اس طرح کی خواہش رکھنے والے احمقوں کی جنت میں ہیں ان کی حقیقت کا کچھ فہم و ادراک ہی نہیں۔ بات بہت آگے پہنچ گئی، ہر گھر سے بھٹو تو نہیں نکلا مگر ہر پاکستانی باشعور جوان کے دل ودماغ میں اس وقت عمران خان کی سوچ اور افکار پوری طرح سے گھر کر چکے ہیں۔
پاکستان کا ہر نوجوان اس وقت عمران خان بن چکا ہے، کسی کو پولیس یا اداروں کے تشدد ان کی دہشت اور گرفتاری کا اب کوئی خوف باقی نہیں رہا بلکہ اب تو وہ سینہ تان کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں ڈاکو اور لٹیروں کے نام سے پکارنے لگے تھیں۔ میں نے پاکستان میں جا کر نوجوانوں کی آنکھوں میں شعلے دیکھے ہیں اس طرح کے شعلے کہ وہ عمران خان کے ایک اشارے پر کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں اس لئے اب پاکستانی نوجوانوں کو ڈرا دھمکا کر بیل بکریوں کی طرح سے چلانا ممکن نہیں رہے گا جس کا زندہ ثبوت طاقتور حلقوں کی جانب سے کوشش کے باوجود عمران خان کو قتل کرنے اور اسے گرفتار کرنے کا کوئی ایک بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا کیونکہ ملکی عوام ہی اپنے محبوب لیڈر کی حفاظت کے لئے ایک سیسہ پلائی دیوار بن چکی ہے۔ عمران خان کے خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی کرنے کے لئے انہیں جلیوا والا باغ کے تاریخ ساز واقعہ کو دہرانا پڑے گا اور اس بار جنرل ڈائر کا رسوائے زمانہ کردار کون ادا کرے گا، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا للہ اسلام آباد کے فلاسفر آئی جی ناصر اکبر خان یا پھر پنجاب کے آئی جی یہ کردار ادا کریں گے کیونکہ جنرل ڈائر بنے بغیر ان کا یہ خواب کسی بھی صورت میں شرمندہ تعبیر ہونے والا نہیں ہے اب اصل صورتحال کیا ہے، عدالتوں سے وارنٹوں کا اجرائ، پی ڈی آیم کی اس کٹھ پتلی حکومت کا ہے یا پھر ان کے سہولت کاروں کا۔ کیونکہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے ہاتھ ملانے کو تیار ہے وہ صرف اپنی کھال بچانے کی ضمانت مانگ رہے ہیں اور اس کا علم بھی پی ڈی ایم کی حکومت کو ہے اس لئے انہوں نے عدالتوں سے وارنٹوں کی بھرمار کروا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ سب کچھ تو اسٹیبلشمنٹ کروا رہی ہے اس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس طرح سے کرکے پی ڈی ایم دراصل عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں فاصلے اور دوریاں بڑھانا چاہتی ہیں وہ انہیں آپس میں لڑوا کر اپنی اس غیر قانونی غیر اخلاقی حکومت کو طول دینے کی کوشش کررہی ہے یہ تمام تر کارروائیاں ملک کو غیر مستحکم کرنے کے مترادف ہے۔ اس طرح سے آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کی کمزوریوں کو بے نقاب کرکے ملک دشمنوں کے کاموں کو آسان بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اس نازک ترین صورتحال میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو مداخلت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں جاری غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہو سکے اور الیکشن کروانے پر عملدرآمد شروع کردیا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں