نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 184

مینار پاکستان کا شرمناک واقعہ، حقیقت یا ڈرامہ!

یہ میڈیا کا دور ہے اور میڈیا کو ہی اب ہتھیار کے طور پر ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اس ہتھیار کے ذریعے افراد کے درمیان قوموں، مذاہب اور خود ملکوں کے درمیان نفرت اور ٹکراﺅ کی سی صورتحال بہ آسانی پیدا کرلی جاتی ہے اس لئے کہ میڈیا کے ذریعے انسانی اذہان کو با آسانی کسی بھی جانب موڑا جا سکتا ہے۔ اتنی لمبی چوڑی تمہید باندھنے کی ضرورت یا پھر نوبت مجھے اس لئے پیدا ہوئی، زندہ دلان لاہور شہر کے تاریخی اقبال پارک میں چودہ اگست کو جس طرح کا افسوسناک واقعہ یا پھر ڈرامہ رچایا گیا اس کے تانے بانے اسی صورتحال سے جا کر ملتے ہیں جس کا تذکرہ میں بالائی سطور میں کر چکا ہوں۔ یہ ایک نارمل ٹک ٹاک مودی نہیں تھی بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لکھا ہوا اسکرپٹ کے تحت یہ سب کچھ کیا گیا۔ فلم کی شوٹنگ کے لئے خاص طور سے مینار پاکستان اور چودہ اگست جشن آزادی کا روز مقرر کیا گیا۔ دو قومی نظریہ کے قرارداد والے مقام کا انتخاب اور وہاں یہ شرمناک واقعہ پیدا کرنے کے لئے راہیں ہموار کی گئیں۔ اس طرح کی وجوہات اور جواز پیدا کر دیئی گئے کہ ڈرامہ حقیقت کا رنگ اختیار کر جائے، فلائنگ کسنگ دینے والی عائشہ سے ہجوم نے حقیقی کسنگ کا سلسلہ شروع کیا اور اس کے بعد وہی ہوا جس کے لئے یہ سب کچھ کیا گیا یعنی ویڈیو بنوا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان میں جشن آزادی میں کسی عورت کی کوئی عزت محفوظ نہیں۔ پاکستان یعنی صاف ستھرے ملک میں یہ کس طرح کے بھیانک کھیل کھیلے جاتے ہیں اس پیغام کے لئے یہ ساری تگ و دو کی گئی۔
14 اگست کو یہ ڈرامائی شوٹنگ ہو جاتی ہے جس کے بعد 15 اگست کو اس ڈرامے کی ہیروئن ہسپتال کی نرس عائشہ انسٹاگرام پر اپنی پوسٹ کبوتر کے ساتھ شیئر کرتی ہے اپنے ساتھ ہونے والے نارواں سلوک کا کوئی تذکرہ کسی سے نہیں کیا جاتا اور 16 اگست کی شام کو اس ڈرامے میں پاکستان کے دو یوٹیوبر کی انٹری ہو جاتی ہے جن کا کام اپنی صحافیانہ کاریگری سے اس ڈرامے میں حقیقت کا رنگ بھرنا ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ عائشہ کو کسی جگہ بلواتے ہیں اس کا انٹرویو کرتے ہیں اور اپنے مطلوبہ جملے ان کی منہ میں ٹھونستے ہوئے اس سے جواب پوچھتے ہیں، غرض وہ جانتے بوجھتے عائشہ کو اس سارے ڈرامائی صورت حال کا ذمہ دار ظاہر کرنے کے بجائے اسے مظلوم ظاہر کرتے ہیں اسے دکھیاری بتلاتے ہیں کہ ایک محب الوطن پاکستانی لڑکی عائشہ کو جشن آزادی منانے کی سزا چار سو نوجوانوں کی جنسی خوراک بننے کی صورت میں دی گئی۔
یہ ایک بہت ہی بھیانک کام تھا جو ان دو یوٹیوبر نے محض اپنی ریٹنگ اور آمدنی بڑھانے کے لئے کیا، ایسا کرتے ہوئے ان بے ضمیروں اور حرام خوروں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ جو کرنے جارہے ہیں اس سے پاکستان کی ساکھ پوری دنیا میں کتنی خراب ہو گی۔ اسلامی شریعت اور خود پاکستانی معاشرہ کہاں جا کر کھڑا ہو جائے گا۔ دنیا میں پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف کیا پیغام جائے گا اس کی انہیں بالکل بھی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ انہیں تو بس اپنی ریٹنگ کی پڑی تھی کہ اس ویڈیو کو ساری دنیا دیکھے گی اور ان کا یوٹیوب چینل کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا۔
اب جب کہ خود حکومت نے اس سارے معاملے کی انکوائری شروع کردی ہے اور پولیس نے بھی باضابطہ اس واقعہ کی تحقیقات شروع کردی ہے۔ عائشہ ریمبو اور ان کے دوسرے 18 ساتھیوں کو شامل تفتیش کرلیا ہے سب کے بیانات لے لئے گئے ہیں اب تک کی تفتیش سے یہ ہی بات سامنے آئی ہے کہ ٹک ٹاک ٹیم کا مقصد بھی اس طرح کی شرمناک ویڈیو کا بنانا تھا جس کے لئے عائشہ کو ذہنی طور پر تیار کرلیا گیا تھا اور عائشہ نے ہی 12 اگست کو اپنے مداحوں کو انسٹا گرام اور دوسرے سوشل میڈیا کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ جو نوجوان اس کے ساتھ کسی بھی انداز میں سیلفی بنوانے کے خواہش مند ہیں تو وہ 14 اگست کو اقبال پارک میں آجائے وہاں خوب ہلہ گلہ ہو گا اور رنگین انداز میں جشن آزدی منائیں گے۔ اس نادر موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیں اس طرح پیغام دینے کا مقصد یہ پورے کا پورا واقعہ ہی پلانٹڈ تھا جس کے بعد 14 اگست کو عائشہ کسی کوئین کی طرح سے نوجوانوں کے حصار میں اقبال پارک میں داخل ہوتی ہیں اور اس کے بعد وہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے لئے یہ سب کچھ کیا جارہا تھا؟
یہ بالکل اوپن کیس ہے، ایک کھلی کتاب کی طرح سے اس میں کوئی پیچیدگی نہیں، محض اپنی ریٹنگ کو بڑھانے کے چکر میں یہ ملکی ٹولہ غیر ملکیوں کے ذریعے استعمال ہو کر ملک و ملت اور اسلامی معاشرے اور ان کے طور طریقوں کی رسوائی کا باعث بن گیا اس سارے کھیل میں دونوں میڈیا پرسن یعنی یوٹیوبر کا کردار ناقابل معافی اور سزا کے مستحق ہے اس لئے کہ انہیں اس سارے ڈرامے کی اصلیت کا علم تھا اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ یہ ویڈیو بہت زیادہ دیکھی جائے گی، ملک اور مذہب دشمنوں کے لئے یہ ایٹم بم کا کردار ادا کرے گی لیکن اس کے باوجود ان دونوں نے اس ڈرامے میں حقیقت کا رنگ بھرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ اپنی ساری صحافیانہ صلاحیتوں کا استعمال کیا۔ اس لئے وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے ملک اور مذہب کی رسوائی کا باعث بننے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کو کسی بھی مصلحت کی بھینٹ نہ چڑھنے دیا جائے بلکہ ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنے کا حکم دے کر انہیں نشان عبرت بنایا جائے تاکہ ملک دشمنوں کو دوبارہ اس طرح کی حرکت کرنے کی جرات نہ ہو اور ٹاک ٹاک اور دوسرے متنازعہ شر انگیزی کے مرتکب سوشل میڈیا کے خلاف بھی کارروائی کریں جو ملک میں انارکی پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں اس طرح کے اقدامات میں ہی امن و امان اور ملک کی سلامتی مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں