امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے کارنامے 394

نوکر شاہی اور پاکستان

پاکستان کے دو اداروں کی بہتری کا ادراک اداروں کو بگاڑنے والوں سے زیادہ اداروں سے متاثر ہونے والوں کو ہے لیکن اس کے باوجود وہی لوگ ان دو اداروں کو ماڈل بنا کر اس کی طرز پر دوسرے اداروں کو بہتر بنانے کے بجائے ان دونوں اچھے اداروں کی کارکردگی کو تباہ کرنے کے لئے پارلیمانی بارود کے استعمال کرنے کا موقع ہی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ پڑھنے والے اندازہ لگا چکے ہوں گے کہ میں عدلیہ اور فوج کے محکمے کا ذکر کر رہا ہوں جو اس وقت بلا کسی سیاسی مداخلت کے اپنے امور آئین اور قانون اور میرٹ کی بنیاد پر نمٹا رہے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات حکمرانوں اور اشرافیہ کی بھی چیخیں تک نکل جاتی ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ عدلیہ اور فوج میں تقرری ٹرانسفر اور پروموشن کا اپنا ایک طریقہ کار ہے اور ہر کام میرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہی لوگ آگے بڑھتے ہیں جن میں آگے بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ چور راستوں سے آگے بڑھنے کا ان اداروں میں کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ان اداروں کی کارکردگی پاکستان کے باقی تمام اداروں سے کئی گنا بہتر ہے اگر ان دونوں اداروں کو ماڈل بنا کر صرف بیوروکریسی پر ہی اس کا اطلاق کر دیا جائے تو میں یہ بات یہاں دعویٰ کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ پاکستان کے 80 فیصد مسائل حل ہو جائیں گے۔ مہنگائی کا بھوت بھی اپنی موت آپ مر جائے گا اور بے روزگاری بھی کسی حد تک کم ہو جائے گی۔ اس لئے کہ پاکستان کی بیوروکریسی ہی اصل حکومت ہوتی ہے۔ وزارتوں پر براجمان لوگ بیوروکریسی کے بغیر زیرو ہوتے ہیں یہ بہت ہی آسانی کے ساتھ کسی بھی وزیر کو تنگی کا ناچ نچوا لیتے ہیں۔ اسی لئے بیوروکریسی کو میرٹ پر لائے بغیر اس میں نکھار اور بہتری لانا دیوانے کے خواب سے کم نہیں۔ ایسا کرنے کے لئے حکومت کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف سنیارٹی کو ملحوظ نظر رکھنا ہو گا۔ جو سینئر ہو اسے ہی کسی محکمے کا سیکریٹری اور اسے ہی کسی صوبے کا چیف سیکریٹری اور اسے ہی وزیر اعظم کا پولیٹیکل سیکریٹری لگایا جائے۔ ٹرانسفر پوسٹنگ اور پروموشن کا سارے کا سارا اختیار اندرونی ہو اس میں کسی بھی طرح کی کوئی بیرونی مداخلت نہ ہو جس کسی محکمے کے سیکریٹری کی کارکردگی مایوس کن ہو اور ان کے خلاف ان کے وزیر یا کسی پارلیمانی کمیٹی سے کسی طرح کی شکایت آئے تو چیف سیکریٹری اس کی اپنے طور پر انکوائری کروائیں اور اس کے بعد خود اسے سزا دیں اسی طرح سے مقابلے کے امتحانات کو بھی ہر طرح کی مداخلت سے آزاد کروائیں، انہی لوگوں کو سلیکٹ کریں جو اس کے اہل ہوں۔ جس طرح سے فوج میں ہوتا ہے اس کے بعد کیا ہو گا۔۔۔
پڑھے لکھے لوگ اپنی صلاحیت کی بنیاد پر آگے آئیں گے اور ایک بدلا ہوا پاکستان سامنے آسکے گا۔ یہ کام نا ممکن نہیں ہے مگر مشکل ضرور ہے لیکن موجودہ حکومت یعنی عمران خان کے لئے یہ کوئی مشکل نہیں اس لئے کہ وہ جدوجہد اور محنت پر یقین رکھتے ہیں اور خود بھی محنت کے بل بوتے پر ملک کے بلند ترین مقام تک پہنچے ہیں ان کے مخالفین بھارت کی ترجمانی کرتے ہوئے انہیں ایوان میں جھوٹا آدمی اور نہ جانے اور کیا کچھ کیوں نہ کہیں لیکن انہوں نے انے عمل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ بانی پاکستان قائد اعظم کے جانشین ہیں وہ پاکستان کو ایک فلاحی اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں اس لئے عمران خان کو چاہئے کہ وہ اپنی پوری توجہ بیوروکریسی پر دیں اس کام کے لئے وہ اپنے پولیٹیکل سیکریٹری سمیت کسی بھی دوسرے مشیر سے کوئی صلاح و مشورہ نہ کریں بلکہ فوج اور عدلیہ کے کارکردگی کو مدنظر رکھ کر اسے مشعل راہ بناتے ہوئے میرٹ اور سینیارٹی کے نظام کو بیوروکریسی میں رائج کروائیں اور چیک اینڈ بیلنس کے نظام کے تحت بیوروکریٹس کی کارکردگی کا جائزہ لیں جس کے خلاف شکایت ملے اسے اس کے چیف سیکریٹری کے حوالے کردیں کہ وہ خود ہی ایکشن لیں۔
اس کے بغیر کسی بھی حکومت کی کارکردگی بہتر نہیں ہو سکتی اس لئے نوکر شاہی کے نبض پر ہاتھ رکھنے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں عمران خان کے حکومت کو اس وقت سب سے زیادہ نقصان ہی نوکر شاہی سے پہنچ رہا ہے اور ایسے لگ رہا ہے کہ اقتدار سے محروم دونوں بڑی پارٹیوں نے بیوروکریسی میں موجود اپنے اپنے گروپس کو موجودہ حکومت کو ناکام بنانے کا ٹاسک دے دیا ہے جس کی وجہ سے نوکر شاہی یعنی بیوروکریسی پوری تندہی کے ساتھ ہر حکومتی فرمان کی راہ میں تکنیکی رکاوٹیں کھڑی کررہی ہیں۔ وہ حکومت وقت کو ایک طرح سے بلیک میل کررہی ہے اس لئے وزیر اعظم عمران خان کو فوری طور پر اس جانب توجہ دینا چاہئے ۔ ہر گھڑ سوار جس گھوڑے پر سواری کرتا ہے اسے اس کو سدھارنا پڑتا ہے جس کے بغیر اس کا منزل تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لئے نوکر شاہی سے کام لینے کے لئے ان کی نفسیات کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کو سمجھے بغیر ناجائز تو کیا ان سے کوئی جائز کام لینا بھی ممکن نہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی حکومت نے تمام تر مخالفتوں کے باوجود خارجی سطح پر پاکستان کو بند گلی سے نکال کر دنیا کی سب سے مصروف ترین چورنگی پر پہنچا دیا ہے جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، ترکی کے صدر طیب اردگان اور ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد جیسی قد آور شخصیات نے پاکستان کی یاترا کی۔ اور عمران خان کے بیانیہ کی وجہ سے ہی آج کا ہندوستان تیزی کے ساتھ عالمی تناہی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا پاکستان کی سرزمین سے کشمیریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق بیان دینا ہی عمران خان کے بیانیہ کی جیت اور اس کی صداقت ہے۔ خارجی محاذ پر عمران خان کی حکومت کی کامیابی کے بعد اندر کے محاذ کا گرم ہونا یا گرم کیا جانا تو ایک فطری امر تھا اور سب کو ہی معلوم ہے کہ اس کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں۔ اس لئے عمران خان کو چاہئے کہ وہ بیوروکریسی کے نظام میں فوری طور پر تبدیلی لاتے ہوئے اسے ملک کے دوسرے دونوں معتبر اداروں کے ہم پلہ لانے کی کوشش کریں۔ بیوروکریسی کے تعاون کے بغیر قانون کی حکمرانی کا خواب دیوانے کے خواب سے کم نہیں ہو گا۔ اس لئے ان بیوروکریٹس کو میر جعفر اور میر صادق کی راہ کی بجائے نواب سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کے راہ کا راہی بنانے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ تب ہی پاکستان میں بدلاﺅ آئے گا۔ تب ہی حب الوطنی کے پھولوں سے یہ چمن مہک اٹھے گا۔ جہاں میر صادق اور میر جعفر کی مہربانی سے بارود کی بو پھیل چکی تھی۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں