عمران خان توجہ فرمائیے! 159

ٹورنٹو، ایتھوپیا، ہرارے

آج کا کالم سطح سمندر سے 3500 فٹ کی بلندی سے حاضر خدمت ہے۔ ٹورنٹو کے پیئرسن ایئرپورٹ سے دن کے گیارہ بجے ایتھوپین ایئرلائن سے ہرارے کے لئے روانہ ہوا۔ ٹورنٹو سے ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا کی فلائیٹ تیرہ گھنٹوں کی ہے۔ اتنے ہی وقت میں ہم ٹورنٹو سے لاہور یا کراچی پہنچ جاتے ہیں۔ ایتھوپیا سے ہرارے کی فلائیٹ چار گھنٹو پر مشتمل ہے۔ ملا جلا کے یہ سفر بیس گھنٹو کا بنتا ہے جو کہ ایک لمبا سفر ہے۔
2017ءکے اوائل یعنی 26 اپریل کو میں اپنی فیملی کے ہمراہ لاہور سے استنبول اور واشنگٹن سے ہوتا ہوا ٹورنٹو پہنچا تھا۔ تو گویا پورے چھ سال کا طویلعرصہ بیت گیا ہے کہ میں کینیڈا سے باہر نہیں گیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہاں کے پیپرز کے حصول میں غیر معمولی وقت لگ گیا۔ جو کام عام حالات میں دو سال میں ہو جاتا تھا وہ پانچ سال میں ہوا۔ اس کی ایک اور وجہ کرونا وبا کا پھیلنا تھا۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے 2019ءکے آخر میں یہ وبا، دنیا بھر میں پھیل گئی۔
2020ءاور 2021ءمیں اس وباءسے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ اور دنیا بھر کا نظام زندگی درہم برہم ہو گیا۔ شہروں کے شہر اور ملک در ملک لاک ڈاﺅن میں چلے گئے۔ ہر شخص دوسرے سے ڈرنے لگا۔ اسی دوران یہاں سرکاری دفاتر بھی بند ہو گئے اور گھروں سے کام ہونے لگا۔ جس کی وجہ سے معمول کے دفتری کام انتہائی سست روی کا شکار ہو گئے بلکہ Dead ہو گئے۔ جس سے امیگریشن سے متعلق کیسز بھی التواءکا شکار ہو گئے۔
یہ وہ پیریڈ تھا جب لوگوں میں شدید ڈپریشن پیدا ہو گیا۔ میری فیملی اور دوست احباب بھی اس کا شکار ہوئے اور خاک ہو گئے۔ ان چھ سالوں میں پاکستان میں بے شمار تبدیلیاں آئیں، حکومتیں تبدیل ہوئیں، نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور اسے پانامہ پیپرز کیس میں سزا کے ساتھ ساتھ نا اہلی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 2018ءمیں ہونے والے عام انتخابات میں عمران خان کی پی ٹی آئی اکثریتی جماعت بن کر ابھری۔ عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ خان کی پونے چار سالوں پر مشتمل حکومت کے دوران بے شمار اچھے کام ہوئے لیکن وہ فلاحی نوعیت کے تھے۔ 2/3rd اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کوئی خاص قانون سازی نہ کرسکی۔ بہرحال خان کی حکومت پچھلے ادوار سے بہت بہتر ثابت ہوئی۔ اندرون و بیرون ملک ہمارا امیج بہت بہتر ہوا۔
مگر پھر وہی بند کمروں کی سازشوں نے سر اٹھایا اور بیرونی آقاﺅں کے ساتھ مل کر جنرل (ر) باجوہ نے شب خون مارا اور حکومت ختم کرکے معروف مافیا پی ڈی ایم کو ملک پر مسلط کردیا جو کہ انہیں شخصیات اور جماعتوں پر مشتمل تھا کہ جو پیشہ ور سیاست دان تھے۔
ایتھوپیا ایئرلائن کا عملہ یعنی فلائیٹ اٹینڈنٹ بڑی مہارت اور مستعدی سے اپنے فرائض سر انجام دیتا رہا۔ تمام سفر کے دوران انہوں نے مہمانوں کی تواضع مشروبات، کھانے، اسنیکس اور صبح کے ناشتہ سے کی اگر میں یہ کہوں کہ دنیا کے غریب ترین ملک کی ایئرلائن ہمارے جیسے ایٹمی ملک سے بہتر تھی تو شاید غلط نہ ہوگا۔
صبح کے سات بج رہے تھے اور ہم ادیس ابابا کے بین الاقوامی ہوائی آدے پر لینڈ کر چکے تھے۔ تیرہ گھنٹو کا یہ طویل سفر کچھ بور اور کچھ اچھا گزرا۔
یہاں دو گھنٹے کا ٹرانزٹ تھا اور پھر اگلی فلائیٹ ہرارے کے لئے تھی جو کہ چار گھنٹو پر مشتمل تھی۔ ایئرپورٹ مسافروں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا حتیٰ کہ کہیں بیٹھنے کے لئے کرسی دستیاب نہ تھی۔
ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے بس اسٹینڈ ہو، ایئرپورٹ خاصا بڑا مگر خوبصورت نہیں تھا البتہ یہاں ریسٹورنٹ اچھے اور مختلف اقسام کے نظر آرہے تھے۔ ایئرپورٹ پر چیزیں ہمیشہ سے مہنگی ہوتی ہیں، میں نے یہاں سے پانی کی 500ml کی بوتل دو ڈالر میں خریدی۔ ناشتہ تو ہم پہلے ہی جہاز میں کر چکے تھے۔
ایتھوپیا بڑی تاریخی حیثیت کا حامل ہے خاص طور پر اگر اسلامی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کے زمانے کی دو ہجرتیں بڑی مشہور ہیں ایک ہجرت مدینہ اور دوسری ہجرت حبشہ۔ ایتھوپیا کا پرانا نام ”حبشہ“ تھا۔ مکہ والوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر نبی آخر الزماں نے حضرت جعفرؓ کو حکم دیا کہ تم بزرگوں، عورتوں اور بچوں کو لے کر حبشہ ہجرت کر جاﺅ۔
سنا ہے کہ اس کا حاکم نجاشی ایک درد مند دل رکھنے والا انسان ہے اور وہ ضرور آپ لوگوں کو حفاظتی پناہ میں رکھے گا۔ چنانچہ حضرت جعفرؓ 70, 60 لوگوں کا قافلہ لے کر مکہ سے روانہ ہو گئے اور طویل مسافت طے کرکے حبشہ پہنچ گئے۔ جب آپؓ کو نجاشی کے دربار میں پیش کیا گیا تو آپؓ نے جو پیغام رسول پہنچایا وہ نجاشی اور اس کے درباریوں کے لئے دل دہلا دینے والا تھا۔ حضرت جعفرؓ نے آپ کا پیغام اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اور اعلان سے پہنچایا اور آپ کی بنوت کا اعلان بھی کیا۔ نجاشی چونکہ ایک نرم دل انسان تھا وہ سب باتیں سن کر اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہم مسلمانوں کو پناہ دیں گے اور ان کی حفاظت بھی کریں گے۔ یہ تمام واقعات میرے ذہن و قلب پر وارد ہو رہے تھے اور میری سوچیں چودہ سو سال پہلے ہوئے اس واقعے کی جانب مڑ گئی تھیں۔
خیر اللہ اللہ کرکے ہرارے کی فلائیٹ اناﺅنس ہوئی جو کہ چار گھنٹو پر مشتمل تھی۔ ایتھویا سے ہرارے کا سفر اتنا تھکا دینے والا نہیں تھا۔ جلد ہی گزر گیا۔ ایئرپورٹ پر پہنچتے ہی امیگریشن اور کسٹم کے مرحلوں سے فارغ ہوئے تو باہر لاﺅنج میں میرے دیرانہ بھائی اور دوست تصدق بٹ صاحب انتظار کررہے تھے۔ وہ انتہائی تپاک سے ملے، حال احوال ہوا اور پھر ہم وہاں سے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔ میرا ہرارے کا یہ وزٹ تقریباً ساڑھے چھ سال بعد ہوا ہے اور اس دوران بہت ساری تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں جو آئندہ قسط میں بیان کروں گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں