نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 156

پاور گیم کا ماسٹر مائنڈ کون؟

پاکستان میں اس وقت پاور گیم کے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں ٹی ایل پی یعنی کالعدم مذہبی جماعت کے پرتشدد مظاہروں اور دھرنے و ریلیوں جلوسوں میں مزاحمت کرنے پر پنجاب پولیس کے لاتعداد پولیس والے اپنے ہاتھ اور پاﺅں تڑوا چکے ہیں۔ ایک عجیب سا دنگا فساد جاری ہے۔ پولیس والے سرکاری ملازم ہونے کے ناطے قربانی کا بکرا بنتے چلے جارہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے بھرتی اور حلف یافتہ پنجاب کے پولیس افسران اس سارے دنگا فساد میں نہ صرف خاموش تماشائی بلکہ ایک طرح سے جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں۔ سب کو ساری صورتحال کا علم ہے لیکن ہر کوئی انجان بنا ہوا ہے کیونکہ حکومت کی پس پردہ جو قوتیں کارفرما ہیں وہ اس وقت ایک طرح سے اپوزیشن پارٹیوں کو جلا بخشنے کا باعث بن رہی ہیں اس لئے وہ بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا کر ٹی ایل پی نامی کالعدم جماعت کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کررہی ہیں اور اب جب حکومت ان کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سے ان کی تمام شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے معاہدہ کرلیا ہے تو اب اپوزیشن پارٹیوں کی ٹی ایل پی کا حکومت سے معاہدہ ہضم نہیں ہو رہا ہے اور وہ اس معاہدے کو کسی نہ کسی طرح سے متنازعہ بنانے کی کوششیں کررہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے یہ معاہدہ ختم ہو جائے حالانکہ ان تمام اپوزیشن کے کالعدم جماعتوں کی پشت پر کون سی قوتیں کارفرما ہیں اور وہ اس طرح کے مظاہرے یا پھر پاور شو کے مظاہرے کیا کرتے ہیں۔ اس لئے کہ اس طرح کی صورتحال کا تقریباً دوسری حکومتیں بھی سامنا کرتی چلی آرہی ہیں۔
اس طرح کے یہ پاور شو حکومت وقت کو نفسیاتی دباﺅ میں لا کر ان سے اپنے وہ فرمائشیں اور خواہشیں پوری کروانا مقصود ہوتا ہے جو حکومتیں عام طور پر کرنے کو تیار نہیں ہوتی لیکن جب معاملات اس نہج تک پہنچ جاتے ہیں کہ جس سے حکومت کے ہلنے یا گرنے کا خطرہ ہوتا ہے تو اس وقت اچھے سے اچھے حکمراں بھی جھکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کچھ اس طرح کی صورتحال سے عمران خان کی یہ مخلوط حکومت بھی دوچار ہے اور ان کی اکڑ اور غیر لچکیلی صورتحال بھی اب ٹی ایل پی کے اس پاور شو کی وجہ سے ٹوٹ چکی ہے اور اب وہ ہر وہ کام اچھے بچوں کی طرح سے کرنے کو تیار ہو چکی ہے جو نادیدہ قوتیں کروانا چاہتی ہیں۔ یہ تو شکر ہے کہ یہ معاملہ اندرونی ہے، بیرونی نہیں۔۔۔ لیکن ان سب کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ملک کی اس موجودہ صورتحال پر غیر ملکی طاقتوں کی بھی گہری نظریں ہیں اور انہیں بھی عمران خان کی حکومت کی سب سے بڑی کمزور نظر آگئی ہے اور ڈر اس بات کا ہے کہ غیر ملکی طاقتیں کہیں عمران خان کو جھکانے یا ان سے اپنے کام نکلوانے کے لئے وہ طاقتیں بھی یہ ہی ہتھکنڈے نہ استعمال کرنے لگ جائیں جو ملک کے اندر کی نادیدہ قوتیں استعمال کر چکی ہیں۔ یہ اور اس طرح کی صورتحال ملک کی سلامتی پر ایک نہیں بلکہ بہت سارے سوالات کھڑے کررہے ہیں۔ گھر کے اندر کے جھگڑوں کو اس طرح کے پاور شو کے ذریعے حل کرنے کی بجائے ٹیبل ٹاک اور ڈرائنگ رومز کے اندر بیٹھ کر خاموشی کے ساتھ حل کرنا چاہئے۔ غیر ملکی طاقتوں کو تو کجا خود ملک کی اپوزیشن پارٹیوں کو بھی اس کا علم نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ یہ ملک کی سلامتی کا معاملہ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں اس وقت مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے اور غریبوں کا زندہ رہنا روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود عمران خان ملک کو گمبھیر صورتحال سے نکالنے کے لئے ضرور بھاگ دوڑ کررہے ہیں ان کے مخالفین پیرنی کے جادو ٹونے کے ذریعے حکومتی امور چلانے کے جو الزامات لگا رہے ہیں اس میں بھی کسی نہ کسی حد تک صداقت ضرور ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ امور مملکت سے جادو ٹونے کو دور رکھے اور فہم و ادراک سے امور مملکت کو چلانے کی کوشش کریں جو جس کا کام ہے وہ انہیں کرنے دیں۔ پنجاب پولیس کے آئی جی پر رحم کریں اور بار بار پنجاب پولیس کے سربراہ کی تبدیلی کا سلسلہ ختم کردیں یہ اقدامات حکومت کی رسوائی کا باعث بن رہے ہیں۔ بیماری کا حل پنجاب پولیس کے سربراہ کی تبدیلی سے نہیں بلکہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے ہے جہاں اس وقت کرپشن کی ندیاں بہہ رہی ہیں اس کو روکنے اور ٹوکنے کی ضرورت ہے جو پنجاب پولیس کا سربراہ ان کے کرپشن میں رکاوٹ بن جاتا ہے تو پنجاب حکومت ان کے خلاف ہو جاتی ہے۔ آئی جی پنجاب کو تبدیل کرنے کے بجائے ان افسروں کے خلاف کارروائی کریں جو مسلم لیگ نون کے بھرتی کردہ ان کے حمایت یافتہ ہیں اور وہ اس وقت ٹی ایل پی کے اس پرتشدد مظاہروں میں نہ صرف ان کے ساتھ ہیں بلکہ ان کی پوری مدد کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو بالخصوص اور وفاقی حکومت کو بالعموم ناکام بنانے کی کوشش کررہے ہیں اس لئے اگر عمران خان کچھ کرنا چاہتے ہیں تو وہ ان کے خلاف کارروائی کریں اس سے صورتحال بہتر ہو گی یہ ہی وقت اور حالات کا تقاضہ ہے اور اسی میں ملک کی سلامتی اور عوام کی فلاح مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں