نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 154

پاکستانی حکمران اور پولیس!

پاکستان میں حکمرانوں یا پھر با اثر لوگوں کے لئے اپنے مخالفین کے خلاف مقدمات کا اندراج ایک انتہائی آسان کام ہے، جرم کا ارتکاب ہوا ہو یا نہیں، یا پھر جرم کا ارتکاب مریخ پر ہی کیوں نہ ہوا ہو، پاکستان کے حکمران پاکستان کی پولیس اس کے مقدمات اپنے تھانوں کی حدود میں نہ صرف درج کردیتی ہے بلکہ مخالفین کو برق رفتاری سے گرفتار بھی کر لیتی ہے اور متعلقہ عدالتوں سے ان کا جسمانی ریمانڈ تک وصول کرلیتی ہے اس طرح کے قانونی کارروائیوں کی نظیر جمہوری اور معزز معاشروں میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی مگر پاکستان میں اسے معمول کی کارروائیاں ظاہر کرکے اعتراضات و الزامات کو رفع دفع کردیا جاتا ہے۔ ماضی میں موجودہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کے خلاف اسی طرح سے 15 کلو ہیروئین کا مقدمہ درج کرکے ان کی گاڑی سے ہیروئین کی برآمدگی تک ظاہر کی جا چکی تھی اور خود شیخ رشید کے قبضے سے ایک کلاشنکوف ظاہر کرکے انہیں عدالت سے سزا تک دلوائی جا چکی ہے۔ اب حال ہی میں سعودی عرب میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعہ کے مقدمات پاکستان کے مختلف تھانہ جات میں درج کئے جا چکے ہیں یہ کس طرح کا سنگین مذاق ہے کہ ایک واقعہ ہی سرے سے پاکستان کی سرزمین پر رونما نہیں ہوا تو پولیس پھر کس اختیار کے تحت ان کے خلاف مقدمات درج کرتی ہے اور ان کی متعلقہ عدالتیں کس آئین کے تحت رونما ہونے والے ان واقعات پر عدالتی کارروائی کرسکے گی؟
اس طرح کے انتقامی کارروائیوں سے پاکستان کے تمام تر سیاستدان گزر چکے ہیں مگر افسوس کے کسی ایک نے بھی اس طرح کے غیر قانونی کارروائیوں کو رکوانے کی کوشش نہیں کی جو لو اس طرح کی صورتحال کا سامنا کر چکے ہیں انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ کام بگاڑنا جتنا آسان ہوتا ہے اتنا ہی اسے سنوارنا مشکل ہوتا ہے بالکل اسی طرح سے کسی کے خلاف مقدمات کا اندراج جتنا آسان ہے اتنا ہی انہیں ختم کرنا مشکل ہے، کیوں کے مقدمات کے خاتمے کے لئے بہت سے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور ہر مرحلہ اپنے قد کاٹ کے لحاظ سے اپنا معاوضہ یا پھر اپنی اپروچ کا تقاضا کرتا ہے اور جس کسی کے پاس وہ اپروچ یا معاوضہ نہ ہو تو وہ پھر بے گناہ ہونے کے باوجود جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات کے بوجھ تلے دب کر سسک سسک کر دنیا چھوڑ جاتا ہے۔ پاکستان میں حکمرانوں سیاستدانوں یا با اثر لوگوں کے قانون کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی وجہ سے خود پولیس والے بھی اپنی جیبیں حرام سے بھرنے کے لئے پھر سے جھوٹے مقدمات کے اندراج میں تاخیر نہیں کرتے اور پولیس اور قانون کے اس نا انصافی کا شکار پاکستان کے عام شہری ہو جاتے ہیں۔
پچھلے دنوں پنجاب پولیس نے اسی طرح سے ایک صحافی کو ان کی اہلیہ اور چھوٹی بیٹی کے سامنے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا، ملک کی اعلیٰ عدلیہ پر اب یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پولیس کے اس طرح کے غیر قانونی اقدامات کا نہ صرف نوٹس لے بلکہ اس طرح کے چھوٹے مقدمات کا اندراج کرنے والے پولیس افسروں کے خلاف ان ہی الزامات میں مقدمات درج کرکے انہیں گرفتار کروائیں بلکہ انہیں پولیس کی ملازمت سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے برطرف کروائیں تاکہ آئندہ کسی کو حکمرانوں کے کہنے پر بھی جھوٹے مقدمات درج کروانے کی ہمت نہ ہو، پولیس کا کام معاشرے کے کمزوروں اور غریبوں کی قانونی طور پر مدد کرنا ہے ان کے خلاف طاقتور لوگوں کے کہنے پر مقدمات درج کروا کر جیلوں میں بند کروانا نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں