نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 92

پاکستانی عوام یرغمال؟

پاکستان کو اس وقت دیدہ دانستہ طور پر انارکی کی طرف لے جایا جارہا ہے اور ایسا کرنے میں وہ تمام لوگ ملوث ہیں جو کسی نہ کسی طرح اس وقت ملک پر براہ راست یا پھر بالواسطہ طور پر حکمرانی کررہے ہیں۔ ایک انائی جنگ ہے جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ روز بروز بڑھتی ہی جارہی ہے، پھر اس کام کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے جو اس ملک، اس کے نظام یا پھر اس میں رہنے والوں کے لئے بہتر ہے جس کی تازہ ترین مثال سپریم کورٹ کا الیکشن کو ملتوی رکھنے کے معاملے پر ازخود نوٹس لینا ہے۔ پوری قوم نے دیکھ لیا کہ کس طرح سے سپریم کورٹ پر ہر طرح سے دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی، میڈیا پر ان کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ شروع کروایا گیا اور اعلیٰ عدلیہ میں بھی تقسیم کرنے کی کوشش کی، جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے لیکن بعض زندہ ضمیر ججوں نے ملک اور جمہوریت کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو بھانپ لیا اور وہ ثابت قدمی سے اپنی ازخود نوٹس والی کارروائی کو آگے بڑھاتے رہے اس وقت قبضہ گروپ نے ملک کو عالمی دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث بنا دیا ہے۔ ساری دنیا اس وقت پاکستان کی بدلتی ہوئی صورتحال کو دیکھ رہی ہے کہ ملک کے 25 کروڑ عوام کو کس طرح سے کچھ طاقت ور حلقوں نے غلام بنا رکھا ہے۔ کس طرح سے ان کا استحصال کیا جارہا ہے اس انوکھی صورتحال سے مغربی روشن خیال ڈیموکریٹک دنیا کس طرح سے محظوظ ہو رہی ہے، ان کا فہم و ادراک بھی ان کو نہیں ہے جو اس وقت پاکستان میں یہ کھیل تماشہ لگائے ہوئے ہیں۔ پاکستانی عوام کو آمریت سے یقیناً ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے مگر پاکستان کی جمہوریت نے بھی ملکی عوام کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سب سے بڑا گناہ یا جرم بھی لب کشائی بن گیا ہے۔ ظلم و تشدد سہنے کے بعد اس کا برملا اظہار کرنا ایک خطرناک جرم بن گیا ہے اتنا خطرناک کہ اب اسے بغاوت جیسا جرم سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے یہ ناخدا یہ گاڈ فادر اور سسلین مافیا نے تمام اداروں پر قبضہ کرکے انہیں ملکی عوام کے خلاف استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے جو سرکاری افسر جج یا پھر کوئی صحافی زندہ ضمیری کا مظاہرہ کرتا ہے اس کی ویڈیو یا پھر آڈیو بنوا کر اس کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا ہے یعنی ہر وہ ہتھکنڈہ استعمال کیا جاتا ہے کہ جس سے ان تمام سرکاری افسروں اور ججوں کو اپنے اشارے پر چلا سکے۔
اس وقت ان پاکستانی فرعونوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہی عمران خان اور ان کی جماعت بنی ہوئی ہے اور وہ انتخابات کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ خیال کرتے ہیں۔ انتخابات کو وہ اپنے لئے ایک طرح سے موت سمجھتے ہیں اور اس موت سے بچنے کے لئے انہوں نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے گلے میں پٹہ ڈال دیا ہے تاکہ اسٹیبلشمنٹ انہیں اس موت سے بچائے اور وہ خود ہی عمران خان اور ان کی جماعت کو دیوار سے لگانے کے ساتھ ان کی عوامی مقبولیت میں ہی کمی لائے۔ ان کے خلاف اتنے مقدمات بنوائے کہ وہ باقی زندگی جیل میں گزارے۔ ویسے بڑی ہی عجیب سی بات ہے کہ پاکستان کی وہ اسٹیبلشمنٹ جن کے اشاروں پر پاکستانی سیاستدان الٹے پاﺅں بھاگتے تھے، ناچا کرتے تھے، اب ان ہی دھتکارے ہوئے سیاستدانوں نے اسٹیبلشمنٹ کو اپنی انگلیوں پر نچوانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس کی وجہ سے ریاست پاکستان اور اس کے رہنے والے 25 کروڑ عوام کی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ ملک اس وقت ہچکولے کھا رہا ہے۔ وزیر دفاع کہہ چکا ہے کہ پاکستان عملی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے، یہ ایک بہت بڑی بات ہے اور اس اعلان میں ایک اور پیغام مضمر ہے۔ جسے سمجھنے کی ضرورت ہے جس کے لئے بہت سارے غیر ملکی وفود کے پاکستان میں آنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان اس وقت سیاسی اور مالی بحران کے علاوہ سیکیورٹی کے معاملات سے بھی دوچار ہے کیونکہ جو جس کا کام ہے وہ اپنا کام نہیں کررہا بلکہ دوسروں کے ٹاسک کو عملی جامہ پہنانے میں لگا ہوا ہے۔ سابق جرنل امجد شعیب کی گرفتاری ایک بہت بڑا المیہ ہے ان کی گرفتاری ایک اور بہت بڑے ممکنہ تحریک کے لئے بارش کا پہلا قطرہ بھی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ خاموشی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے اور حالات اسی طرح کے بہت بڑے طوفان کے آنے کا اشارہ دے رہی ہے کیونکہ ملکی صورتحال اس وقت کسی کے بھی کنٹرول میں نہیں۔ ان کے بھی نہیں جو خود کو بادشاہ گر کہلواتے رہتے ہیں۔ ملکی عوام کی نظریں اس وقت اپنی عدلیہ پر لگی ہوئی ہیں، کالم کی اشاعت تک سپریم کورٹ سے قوم کو کوئی اچھی خبر ملے اور ملک بہتری کی طرف چل پڑے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں