بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 157

پاکستان کا مقدمہ

پاکستان اور پاکستانی عوام کی بدقسمتی کہئے کہ ایک ایسے منجدھار اور ایسے کرپٹ اور بدمعاش حکمرانوں میں پھنس چکے ہیں کہ جن کے آسیب سے باہر نکلنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس کی وجہ جہاں حکمران ہیں وہیں عوام کی سوچ بھی منفی ہے۔ غیر تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے ذہنی سطح بھی بلند نہیں اور ہر شخص گزشتہ 75 سالوں میں یا تو سسٹم کا حصہ بن گیا یا پھر تمام معاملات سے کنارہ کش ہو کر خاموشی سے زندگی گزار رہا ہے۔ اس ملک میں بسنے کے حوالہ سے تمام مسائل کا سامنا کررہا ہے۔ بجلی، گیس، پیٹرول، مہنگائی، اقربا پروری تمام مسائل کو خاموش رہ کر قبول کررہا ہے۔ دوسری جانب حکمرانوں کا یہ عالم ہے کہ وہ عوام کی نبض جان گئے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اب عوام میں دم خم نہیں کہ جو ان کے خلاف آواز بلند کر سکیں کیونکہ اداروں میں بیٹھے لوگ بھی مافیا کا حصہ بن چکے ہیں۔ ملک پہلے روز سے نظریہ ضرورت کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ اگر کوئی جج یا جنرل زبان کھولتا بھی ہے تو اپنے ریٹارئمنٹ کے بعد یا تو ٹی وی پر یا پھر کتاب لکھ کر تاریخ میں امر ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اب کوئی ان ریٹائرڈ لوگوں سے پوچھے کہ جب تم اقتدار میں تھے تو تمہاری غیرت اور حمیت کیا گھانس چرنے گئی ہوئی تھی۔ کڑوی سچائی تو یہ ہے کہ کچھ بولنا اور لکھنا بے سود ہے۔ یہ ملک مزید ٹکڑوں میں بٹ سکتا ہے مگر ملک پر قابض اشرافیہ اسے درست راستے پر نہ ڈالنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔ شاید وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کو کنزیومر نیشن میں تبدیل کرکے وہ آرام سے اپنی باریاں لگاتے رہیں گے۔
عوام میں جو شور مچائے اس کی ویڈیوز بنا دیں، جو کچھ لکھنے کی کوشش کرے تو اس کے ہاتھ پاﺅں توڑ ڈالیں، اور اس تمام گھناﺅنے عمل میں اب ایسی سوچ کے فوجی جنرل، اعلیٰ عدلیہ کے ججز، بیوروکریٹس، مفاد پرست، کاروباری شخصات اور میڈیا کے مالکان تک شامل ہیں۔ آج عمران خان ہیرو بن کر جو کچھ باتیں کررہے ہیں وہ بھی اپنے اقتدار کی کنجی چھیننے کے بعد کررہے ہیں۔ ان کے اردگرد بھی مفاد پرست ٹولہ ہی براجمان ہے۔ غرض یہ کہ
جو ملا اُس نے مرے دل کو کھلونا جانا
کھیل کے توڑ دیا توڑ کر چھوڑ دیا ہے یہ مرا افسانہ
ایسے حالات میں مفاد پرستی عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ بے حسی بڑھ جاتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کا گریبان کھینچنا شروع کر دیتے ہیں۔ کمزور کمزور سے دست و گریباں ہو جاتا ہے کیونکہ غصہ اور نفرت حکمرانوں پر نکالنے کی پاداش میں فوج، پولیس اور دیگر ادارے غریب لوگوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ ڈالتے ہیں۔ گزشتہ 75 سالوں میں جن ایماندار افسران نے اپنے طور پر انصاف کرنے کی کوشش بھی کی تو یا تو انہیں مین اسٹریم سے باہر دھکیل دیا گیا یا پھر قبرستان پہنچا دیا گیا۔ کسی کو گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال کر خودکشی کا الزام سر لینا پڑا، کسی کو روڈ ایکسیڈنٹ میں ختم کردیا گیا۔ کسی کو زہر دے دیا گیا یعنی نہایت منظم طریقہ سے یہ سب کچھ گزشتہ 75 سالوں سے اس ملک میں ہو رہا ہے۔ آج ملک میں 95 فیصد وہ لوگ ہیں جو اپنے مفادات کے غلام ہیں۔ جن کے اسٹیکس ملک میں اور ملک سے باہر ہیں۔ انہیں پاکستان میں پلانٹ کیا گیا ہے تاکہ وہ اسلامی طرز میں رہ کر اور مسلمان کا لبادہ اوڑھ کر وہ تمام کام کرلیں جنہیں کرنے کی ان کے مذہب نے اجازت نہیں دی۔
ان تمام پاکستانیوں کے ہاتھوں میں اسکرپٹ تو مسلمان حکمرانوں کی ایمانداری کے ہیں مگر دل و دماغ فرعونیت سے مالا مال ہیں۔ ان میں سے کسی کو مرنا نہیں، کسی کو قبر کی فکر نہیں، کسی کو حساب کتاب کا یقین نہیں، وگرنہ تو انسان رات بھر سو نہیں سکتا بشرطیکہ اس کا ایمان جاگ رہا ہو۔ یہ حکمران اس یقین کے ساتھ زندہ ہیں کہ وہ عوام کے خدمت گار ہیں۔ انہیں یہ احساس ہی نہیں کہ وہ کہاں غلطی پر ہیں۔ انہیں کن معاملات میں اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ غرض یہ کہ مملکت خداداد پاکستان میں رہنے والا ہر شہری اور حکمران خواب سے باہر نہیں آپا رہا۔ پاکستان کی نوجوان نسل عمران خان کے پچھے کھڑے رہ کر کچھ حاصل کرنے کی آخری سعی کررہی ہے مگر یہ بھی نظر کا دھوکہ ہی لگت اہے کہ
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں