امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے کارنامے 127

پاکستان کے مشکل کا ذمہ دار کون؟

میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اس بار کے جشن آزادی کا کالم کس طرح سے لکھوں، میرا قلم نہ تو میرے خیالات کا ساتھ دے رہا ہے اور نہ ہی وطن عزیز میں رونما ہونے والی صورتحال کا۔ ملک کے زمینی حقائق کسی بھی طرح کے جشن منانے سے اس وقت مطابقت نہیں رکھتے، سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ جیلوں میں موجود قیدی جس طرح سے ہر سال انتہائی جوش و خروس کے ساتھ اپنا جشن آزادی 14 اگست کو مناتے ہیں، پورا ملک اس وقت ایک بہت بڑے جیل اور اس میں بسنے والے 22 یا 23 کروڑ عوام قیدیوں کی صورت اختیار کر گئے ہیں، میری سمجھ میں یہ بھی نہیں آرہا ہے کہ میں یہ کالم اپنے پورے ہوش و ہواس میں رہتے ہوئے لکھ رہا ہوں یا پھر غنودگی اور بے ہوشی کی حالت میں۔
ملک میں رونما ہونے والے واقعات سے دل خون کے آنسو رو رہا ہے، حالات نے اتنا مجبور اور بے بس کردیا ہے کہ کھل کر حال دل بھی بیان نہیں کر سکتا۔ دل اس بات کو ماننے کو تیار ہی نہیں کہ ہم آزاد ہیں اور ہمیں آزادی کا جشن دھوم دھام سے منانا چاہئے نہ جانے ہم اس طرح سے کرکے کس کو دھوکہ دے رہے ہیں، خود کو یا پھر دوسروں۔۔۔ کیونکہ ہمیں اس طرح سے آزادی کا جشن مناتے دیکھ کر ہمیں غلام رکھنے کے خواہش مند دور بیٹھے مسکرا رہے ہیں اور ہمارے پاگل پن سے وہ محظوظ ہو رہے ہیں، ہم خود اپنے دشمن ہیں یا واقعی ہمارا کوئی دشمن بھی ہے جو ہمیں اس طرح سے اذیت دے دے کر پریشان کررہا ہے غرض اس سال کا 14 اگست اور جشن آزادی نہ جانے کیوں مجھ پر بہت گراں گزر رہا ہے اور دل یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ ملی نغمیں سن سن کر اپنی آزادی کا احساس کرتے ہوئے جشن مناﺅں نہ تو ہاتھوں می ہتھکڑیاں ہیں اور نہ ہی پیروں میں بیڑیاں ہیں لیکن پھر بھی اپنے آزادی ہونے کا احساس نہیں ہے، اپنی حالت بالکل پر کٹے پرندے والی جیسی ہو گئی ہے۔
ذہن سے آزادی کا تصور بھی شاید کسی نے کھرچ کر نکال دیا ہے جس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ ملک میں اتنا بہت کچھ ہو رہا ہے کسی کو اس کے بارے میں لب کشائی کی ہمت اور جرات بھی نہیں اور تو اور مجھ سمیت دوسرے لاکھوں محب وطن جو ملک سے ہزاروں میل دور بیٹھے ہیں وہ بھی کچھ کہتے ہوئے یا پھر سچ بیان کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ گھبراتے ہیں یا پھر سہمے سہمے سے رہتے ہیں، اس طرح سے ہوتے ہوئے کون پاگل ہو گا جو شادیانے بجائے گا، ڈھولک اٹھائے گا، سبز ہلالی پرچم لہرائے گا، کس طرح سے اپنے کاندھے پر آزادی کی لاش اٹھائے کون کس طرح سے گنگنا سکتا ہے کس طرح سے۔۔۔
انسان کو حقیقت پسند ہونا چاہئے اور زمینی حقائق کو سمجھنا چاہئے، ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے اور وہ کچھ اس وقت ملک میں ہو رہا ہے جو پہلے 75 برسوں میں بھی نہیں ہو سکا اس سلسلے میں ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ حکمرانوں سے زیادہ ملک کے پالیسی میکروں اور سلامتی کے اداروں کے سربراہوں کو سوچنا چاہئے اور غور کرنا چاہئے کہ وہ کس خارجہ پالیسی کو اپنا کر ملک کے کس راہ پر لے کر چل رہے ہو جس شاخ پر گھونسلہ بنا رکھا ہے اسی شاخ کو کاٹ کر گھونسلے کو کس طرح سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ مخالفین کی گرفتاریاں سچائی کو نہ تو بدل سکتی ہے اور نہ ہی اسے چھپا سکتی ہے۔ صورت حال کا فہم و ادراک سے جائزہ لے کر اس کا کوئی مثبت حل تلاش کرنا چاہئے، افغانستان سے بہتر تعلقات ہی پاکستان کے مفاد میں ہے، دشمن پاکستان کو ایک بار پھر کسی بھی بہانے سے لڑوا رہا ہے اور پاکستان نہ جانے کون سے دباﺅ میں آکر خود کو ایک بار پھر پرائی جنگ کا حصہ بنوا کر ملک پر ایک اور نہ ختم ہونے والی جنگ کو مسلط کرنے کی راہیں ہموار کررہے ہیں، یہ کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں بلکہ ملک دشمنی کے مترادف ہے اس ساری صورتحال میں ملک کی سب سے بڑی عدالت کو مداخلت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ملک کے سلامتی اور بقاءکا معاملہ ہے، کسی ایک ادارے کو سیاہ و سفید کا مالک بنوا کر ملک کو داﺅ پر نہیں لگایا جا سکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں