پنجاب کا بحران: گورنر راج یا عدالت کا رُخ 106

پنجاب کا بحران: گورنر راج یا عدالت کا رُخ

لاہور (پاکستان ٹائمز) پاکستان کے صوبے پنجاب میں ایک مرتبہ پھر آئینی بحران جنم لیتا نظر آ رہا ہے۔ وزیرِاعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کی ہدایت پر اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا۔ سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے گورنر کے حکم نامے کو مسترد کر دیا۔ اپنی رولنگ میں انھوں نے کہا کہ گورنر پنجاب کا حکم نامہ قابلِ عمل نہیں اس لیے مسترد کیا جاتا ہے۔ جواب میں گورنر پنجاب نے سپیکر کی رولنگ کو مسترد کرتے ہوئے اسے ‘غیر آئینی اور غیر قانونی’ قرار دے دیا ہے۔ دونوں کے درمیان اختلاف کا مرکز اسمبلی کا اجلاس ہے۔ سپیکر سبطین خان کا کہنا ہے پنجاب اسمبلی کا اجلاس پہلے ہی سے چل رہا تھا جب گورنر نے انھیں ’وزیراعلٰی کو اعتماد کے ووٹ کے لیے‘ اجلاس بلانے کا کہا۔ وہ کہتے ہیں ’آئینی طور پر ایک چلتے ہوئے اجلاس کے دوران نیا اجلاس نہیں بلایا جا سکتا۔‘ لیکن گورنر پنجاب نے ان کے اس جواز کو مسترد کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آئین کہیں بھی آرٹیکل 130 شق 7 کے اطلاق کو نہیں روکتا، اگر اسمبلی کا اجلاس پہلے سے چل بھی رہا ہو۔‘ قانونی ماہرین زیادہ تر اس پر گورنر پنجاب کے موقف کو درست مانتے ہیں۔ وکیل اسد رحیم خان نے بدھ کے روز بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس پر گورنر پنجاب بالکل درست کہہ رہے ہیں۔‘ تاہم قانونی ماہرین سمجھتے ہیں اگر معاملہ عدالت کی طرف جاتا ہے تو اس نقطے پر بحث ہو سکتی ہے کہ گورنر پنجاب نے جن باتوں کو بنیاد بنا کر وزیراعلٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا کیا وہ آئین کے آرٹیکل 130 شق 7 کی تشریح پر پورا اترتی ہیں۔ معاملہ تاحال سپیکر، گورنر اور پھر سپیکر کے درمیان خطوط کے تبادلے تک محدود ہے جبکہ پنجاب میں حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان اعلان کر چکے ہیں کہ وہ 23 دسمبر کو پنجاب اسمبلی تحلیل کر دیں گے۔ دوسری طرف حزبِ اختلاف کی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ وزیرِاعلٰی پنجاب اپنا عہدہ کھو چکے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے جمعرات کے روز لاہور میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے خیال میں آئینی طور پر چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیرِاعلٰی نہیں رہے، صرف گورنر کی طرف سے نوٹیفیکیشن ہونا باقی ہے۔‘ ان کا اشارہ گورنر پنجاب کی طرف سے ممکنہ طور پر وزیرِاعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے لیے جاری کیے جانے والے نوٹیفیکشن کی طرف تھا، تاہم بدھ کے روز گورنر نے ایسا کوئی نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا۔ صوبہ پنجاب کی اس صورتحال میں کئی سوالات جواب طلب ہیں جن میں سب سے نمایاں دو سوال یہ ہو سکتے ہیں کہ کیا 23 دسمبر کو اسمبلی تحلیل ہو سکتی ہے اور کیا گورنر پنجاب وزیرِاعلٰی کو ڈی نوٹیفائی کر سکتے ہیں۔ پنجاب میں حکمراں جماعت پی ٹی آئی اور حزبِ اختلاف دونوں فریقین اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں تاہم کوئی فیصلہ تاحال سامنے نہیں آیا۔ قانونی ماہرین کے خیال میں کسی بھی فریق کی جانب سے کسی انتہائی قدم کی صورت میں معاملہ عدالت کی طرف جا سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں