تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 551

کم ظرف

بلبل شیراز حضرت سعدی کی ایک حکایت یہ ہے کہ ایک شکص اس قدر مفلس اور نادار تھا کہ تن ڈھانکنے کے لئے اس کے پاس کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی نہ تھا۔ وہ اپنے جسم کو ریت اور مٹی سے دھانک کر چھپائے رکھتا تھا ایک دن اتفاق سے اس دور کی ایک برگیزہ بڑی ہستی جن کو اللہ سے قربت رہتی تھی اس طرف سے گزری تو اس مفلس نادار نے ان برگزیدہ ہستی سے درخواست کی کہ یا حضرت میرے لئے اللہ پاک سے دعا فرمائیں کہ وہ میری غربت اور ناداری دور فرمائے۔ حضرت کو اس پر رحم آگیا، آپ نے اس کے حق میں دعا فرمائیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرلی یوں چند ہی دنوں میں اس کی غربت کو خوشحالی میں بدل دیا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ان بزرگ ہستی کا اس طرف سے گزر ہوا تو انہوں نے دیکھا کہ اس شخص کو لوگوں نے پکڑ رکھا ہے اور اس پر تھو تھو کررہے ہیں اس کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ آپنے پوچھا کہ یہ لوگ تم اس شخص کو برا بھلا کیوں کہہ رہے ہو اس کو کیوں پکڑ رکھا ہے اس نے کیا خطا کی ہے۔
لوگوں نے بتایا کہ جب سے خوشحال ہوا ہے لوگوں کے لئے مصیبت بن گیا ہے۔ اس کی خوشحالی سب کے لئے عذاب کا باعث بن گئی ہے پہلے یہ شراب پی کر غل غپاڑہ مچاتا تھا۔ آج اس نے ایک بے گناہ عورت کو قتل کیا ہے اس کو قاضی کی عدالت میں پہنچا کر اس کے کرتوتوں کی سزا ملنی ہے۔
کم ظرف کو طاقت اور وسائل حاصل ہو جاتے ہیں تو وہ لوگوں کے ساتھ بدسلوکی کر مرتکب ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ خدا نے سب کی حالت ایک جیسی نہیں رکھی، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق ہی ہے کہ
مل جاتا بلی کو اُڑنے کا ہنر
ایک آن میں کر دیتی چڑیوں کا صفایا
پا لیتا اگر سینگ گدھا گائے کی مانند
پاس اپنے کسی کو بھی پھٹکنے نہ دیا
حضرت سعدی کی یہ حکایت پڑھ کر ہمیں اپنا وطن یاد آگیا جہاں اوپر سے نیچے تک لوگ کم ظرفی کے مظاہرے کررہے ہیں اور اپنے زیردست لوگوں کی زندگی اجیرن کئے دے رہے ہیں۔
جس طرح جاگیرداروں اور وڈیروں کے پاس قوت آگئی ہے اس کے سہارے ان کے قابو میں آتے ہوئے ہاری کے ساتھ سلوک ہو رہا ہے اس وڈیرے کا رول اب جاگیروں اور زمین پر ہی نہیں اب تو معاشرے کے ہر طبقے جہاں جوکوئی بالادست ہے وہ اپنے زیردست کی زندگیوں کو عذاب بنائے ہوئے ہے اس طرح معاشرے کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں وڈیرے اور ہاری کی منظرکشی ہوتی نظر آرہی ہے افسر ماتحت مالکان مل اور مزدور پولیس اور عوام حاکم اور محکوم کا آپس میں وہ ہی انداز ہے جو وڈیرے کا ہاری کے ساتھ یا کم ظرف کا محکوم کے ساتھ، یہ ہی حال بڑے سے بڑے گھروں کا ہے یا چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں کا۔ جہاں پر جو بالادست ہے وہ حاکم یا وڈیرہ بنا ہوا ہے جو زیردست ہے وہ ہاری بنا ہوا ہے۔ گھروں کے اندر جہاں شوہر بالادست ہے وہ بیوی کے لئے ظالم ہے جہاں بیگم بالادست ہے وہ شوہر کے لئے عذاب ہے اس موقع پر ہمیں انگریزی کے معروف ادیب جارج برناڈسا کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ ذہن کا بوجھ کم کرنے کے لئے ہم سنائے دیتے ہیں۔ برناڈشاہ کے ایک دوست جو بنکار تھے برناڈشا سے مشورہ طلب ہوئے اور پوچھنے لگے کہ میں شادی کرنا چاہتا ہوں آپ کے خیال میں کیا بہتر رہے گا۔ برناڈشاہ نے جواب میں کہا کہ جو عورت تم جیسے سے شادی کے لئے رضامند ہوگی وہ یقیناً احمق ہوگی اور احمق عورتیں اچھی بیویاں ثابت نہیں ہوتیں مگر ہمارا خیال دوسراہے کچھ مرد بھی احمق ہوتے ہیں اور کہیں عورتیں، یعنی کبھی کبھی برے مردوں کو اچھی عورتیں مل جاتی ہیں اور کبھی اچھی عورتوں کو برے مرد۔ اس صورت میں ایک فریق ہاری بن جاتا ہے دوسرا وڈیرہ۔ یوں زیادہ طرح کے گھروں میں وڈیرہ اور ہاری کی کہانی دہرائی جارہی ہے ہم اکثر یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ انسان جو بے روزگار ہو اور روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہو اس کی نوعیت اس کنواری لڑکی کی مانند ہوتی ہے جس کو اپنا بر یا شوہر کی بڑی بے چینی سے تلاش ہوتی ہے جب اس کی قسمت سے کسی اچھے انسان سے شادی ہو جاتی ہے جو بے روزگار نوجوان کو بہترین نوکری بڑی جدوجہد کے بعد حاصل ہوتی ہے اور وہ اس نوکری سے ناجائز طریقوں سے بددیانتی کے ساتھ نا اہلی کا مظاہرہ کرتا ہے جیسا کہ ہمارے وطن کے اداروں کے ملازمین کا حال ہے جس میں ہمار اکرکٹ بورڈ بھی شامل ہے اس نے کس طرح عاصم کمال توفیق عمر اور فواد عالم کے ساتھ زیادتی کرکے کم ظرفی کا مرتکب ہوا یہ سب اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہمارا ملک کمر ظرفوں کے نرغے میں ہے یہ کم ظرفی اداروں سے لے کر افراد تک میں موجود ہے۔ بلکہ اس کے مظاہرے اب تو گھر گر تک پہنچ گئے ہیں جہاد ہاری اور وڈیرے کی کہانی دہرائی جارہی ہے۔
ورلڈکپ 1992ءکی کرکٹ ٹیم کے چیمپئن پاکستان کے کپتان عمران اللہ خان نیازی نے میڈیا کو انضمام الحق، وسیم اکرم اور وقار یونس کے بارے میں بتایا کہ وہ ان لوگوں کو کیسے براہ راست قومی کرکٹ ٹیم میں لے کر آیا۔ عمران نے بتایا کہ وقار یونس جو کہ ٹیسٹ کرکٹ ٹیم میں آنے سے پہلے ابھی تک کلب کرکٹ اور گلیوں کا کھلاڑی تھا اس کو کس طرح عمران خان نے براہ راست قومی کرکٹ ٹیم میں شامل کیا اور اس کو ورلڈکپ میں اپنے ساتھ لے گیا۔ یہی وقار یونس نے اپنے عروج پر آنے کے بعد با اختیار ہوا تو کس طرح فرعون بن کر کم ظرفی کے مظاہری کرتا رہا۔ سرفراز احمد جس کے ساتھ اس نے بہت زیادہ زیادتی کی، کس طرح پاکستان کی ٹیم کو ساﺅتھ افریقہ اور آئرلینڈ کے خلاف جیت کا باعث ہوا۔ یوں وہ مقولہ دُرست ثابت ہوا ”کم اصل سے وفا نہیں‘ اصل سے خطا نہیں“۔
14 میں سے 11 سیریز اور 37 میں سے 29 میچ جتوانے والے کپتان سرفراز کو کس طرح بے عزت کرکے کرکٹ کے حکمرانوں نے اس ہی سلسلے کو مزید پروان چڑایا جو گزشتہ 50 سال سے حنیف محمد کے ساتھ زیادتیوں سے آگاز ہوا تھا۔ یہ پاکستان کے کم ظرف حکمرانوں کا ایک اور مظاہرہ ہے۔ جو انہوں نے اختیارات کے اور اقتدار کے ساتھ اپنے مخصوص انداز سے گزشتہ ایک عرصہ سے پاکستان کے اُن ہیرو کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے جنہوں نے پاکستان کے لئے بے پناہ خدمات انجام دیں اور ان کے ساتھ ان کم ظرف حاکموں نے وہ ہی سلوک روا رکھنے کی روایات قائم رکھیں۔
سرفراز نے T20 میں پاکستان کو ورلڈکپ جتوایا اور ساتھ ساتھ گیارہ سیریز بھی جتوائیں۔ جب سری لنکا کے خلاف تین میچ کی ہار پر اس نئی سلیکشن ٹیم جس میں مصباح الحق اور وقار یونس کو شامل کیا گیا تھا ان کی ناقص کارکردگی پر ان دونوں افراد کو سزاوار ٹھہرایا جاتا اس کے بجائے سارا ملبہ سرفراز کے سر ڈال دیا جب کہ یہی سرفراز مکی آرتھر کے ساتھ مل کر بہت سی کامیابیاں پاکستان کے لئے حاصل کرچکا تھا۔
یہ بھی تاریخ سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے کہ جب بھی اس طرح سے اپنے ہیرو کے ساتھ سلوک روا رکھا گیا اس کے بعد پاکستان کو بے پناہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اب وقت ثابت کرے گا کہ مصباح الحق اور وقار یونس کو مستقبل میں کس طرح ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا اس کا اندازہ آنے والے سالوں میں سب کو ہو جائے گا۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی یہی رہی ہے کہ اختیار اور اقتدار کم ظرفوں کے ہاتھ جب بھی لگا تو اس کا نقصان پاکستان کو ہی اٹھانا پڑا۔ وقار یونس اور مصباح الحق نے سرفراز کے ساتھ ہمیشہ سے زیادتی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ اس کا نقصان پاکستان کی کرکٹ کو اٹھانا پڑے گا۔ کم ظرفوں کا نقصان ہو نہ ہو پاکستان کو اس کا نقصان ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں