کارنامہ یا ایک نئی جنگ کی شروعات 346

کیا ہندوستان اپنی موت آپ مر رہا ہے؟

جس طرح سے ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی سیاست میں عالم اسلام کے حوالے سے قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے قانون سازی کی وجہ سے امر ہوگئے اسی طرح سے پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان دو قومی نظریہ کو عملی طور پر دنیا کے سامنے ثابت کروانے کے حوالے سے امر ہوتے جارہے ہیں۔ 27 ستمبر 2019ءکو انہوں نے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل سے جو طویل ترین تاریخی خطاب کیا تھا اسے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے سرپرست دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس نے پوری طرح سے ثابت کر دکھایا کہ عمران خان نے جو کچھ کہا تھا وہ تو فلم کا ایک ٹریلر تھا۔ اور اب تو ہندوستان میں پوری فلم چل پڑی ہے۔ آج ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ عالمی دنیا کے سامنے ہے آج ہندوستان کا سیکولرازم خود ریاست کے سرپرستی میں دم توڑ رہا ہے اور ہندواتا پروان چڑھ رہا ہے۔ ہندوستان اپنی شناخت کھوتے ہوئے اپنے آئین کو خود اپنے پاﺅں تلے کچل رہا ہے۔ اور بدقسمتی سے یہ سب کچھ ریاست کے سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ عمران خان نے تو ہندواتا کے اس جوالا مکھی کے پھٹنے کی اطلاع پانچ ماہ قبل ہی اقوام متحدہ کے موثر ترین پلیٹ فارم سے پوری دنیا کو دے دی تھی لیکن افسوس اس وقت کسی نے عمران خان کی اس اطلاع یا اس پیشن گوئی کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور آج جب اس ہندواتا کی جوالامکھی بھارت کے دارالحکومت دہلی میں پوری شدت کے ساتھ پھٹ پڑی اور جس کے نتیجے میں 50 سے زائد مسلمان شہید اور متعدد مساجد مسمار ہو چکے تو تب دنیا کی آنکھیں کھلنے لگی اور انہیں عمران خان کی وہ پیشن گوئیاں رہ رہ کر یاد آنا شروع ہو گئیں اور اب پرامن دنیا کو نریندر مودی کی شکل میں ہٹلر اور آر ایس ایس کی شکل میں نازی ازم یاد آنے لگی ہے۔ پوری دنیا سے بھارت میں سرکاری سطح پر مسلمانوں کے قتل عام پر آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔
مودی حکومت نے منصوبہ بندی کے تحت دہلی کو ہنگامہ آرائی کے لئے منتخب کیا تاکہ دہلی کے ہنگاموں کے ذریعے وہ بہار کے لوگوں کو ڈرا دھمکا سکے اس لئے کہ بہار میں ابھی الیکشن ہونے والے ہیں اور بی جے پی نہیں چاہتی کہ دہلی کی طرح سے وہ بہار کا الیکشن بھی ہار جائے اس لئے وہ دہلی میں خون خرابہ اپنی انتخابی شکست کا بدلہ لینے کے لئے بھی کررہی ہے۔ بی جے پی ایک تیر سے دو شکار کررہی ہے۔ اس سارے خونی اسکرپٹ کا ماسٹر مائینڈ اجیت ڈوول کو رار دیا جارہا ہے۔ جو حال ہی میں شہریت ترمیمی بل کے مظاہرین کے ہاتھوں اس وقت اپنی عزت دو کوڑی کے کرواچکے ہیں جب مظاہرین بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کو فسادات کا ذمہ دار قرار دے کر ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کررہے تھے۔ اور اجیت ڈوڈول ہاتھ کے اشارے سے اسے ماننے سے انکار کررہے تھے جس کے بعد اجیت کو وہاں سے بھاگنا پڑا۔
انڈین حکومت کے سرپرستی میں مسلمانوں کے قتل عام کا اس سے بڑا اور ناقابل تردید ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ جب دہلی ہائی کورٹ کے جج مرلی دھر نے فسادات کے ذمہ دار بی جے پی کے لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کرنے پر دہلی پولیس کی سرزش کی تو راتوں رات جج مرلی دھر کا تبادلہ پنجاب کے ہریانہ ہائی کورٹ میں کردیا گیا اس طرح کے تبادلے کی کوئی نظیر بھارتی تاریخ میں نہیں ملتی اس تبادلے پر بھارت کی ساری اپوزیشن پارٹیوں نے نریندر مودی کی حکومت پر سخت تنقید کی ہے جب کہ بھارت کی نامور مصنفہ اور سماجی کارکن اروندھتی رائے نے بھارت کی موجودہ صورتحال کو انتہا پسندی سے تشبیہہ دی ہے اور نئی دہلی کے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے نریندر مودی کو بدترین آمر قرار دیا اور مودی کو مسلمانوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا۔ بھارتی مصنفہ نے کہا کہ انتخاب میں شرمناک شکست پر بی جے پی اور آر ایس ایس دلی سے انتقامی کارروائی پر اتر آئی ہے اور آنے والے بہار کے الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتہا پسندی وہ بیماری ہے جس میں بھارت مبتلا ہے انہوں نے کہا کہ جنگ آمریت اور مزاحمت کے درمیان ہے جس میں مسلمان سب سے پہلا نشانہ ہیں یہ وہ آوازیں ہیں جو خود ہندوستان سے اٹھ رہی ہیں۔ گاندھی کا ہندوستان آج خود بھارتیوں کے لئے اجنبی بنتا جارہا ہے۔ خود ان مسلمان بھارتیوں کے لئے بے گانہ بنتا جارہا ہے جنہوں نے اپنے خون سے اس ملک کو پروان چڑھایا ہے آج مودی اور اس کی سرپرست دہشت گرد پارٹی آر ایس ایس نے یہ ثابت کر دکھایا کہ علامہ اقبال کا خواب یا تصور بھی درست تھا اور دو قومی نظریہ بھی۔۔۔ اور مولانا عبدالکلام آزاد کے افکار اور نظریات غلط تھے جو قیام پاکستان کے وقت پاکستان جانے والے مسلمانوں کو روک رہے تھے کہ جو لوگ پاکستان بنا رہے ہیں وہ دراصل انہیں غلام بنانے کا منصوبہ ہے آج ہندوستان میں ریاستی دہشت گردی کے ذریعے 20 کروڑ مسلمانوں کو دیوار سے لگا کر ایک طرح سے انہیں انتہا پسندی کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔ مسلمانوں کو مزاحمت کرنے اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر مجبور کیا جارہا ہے جس کے بارے میں عمران خان پہلے ہی اپنے ایک ٹوئٹ میں خدشے کا اظہار کر چکے ہیں ایسا کرنا مسلمانوں سے زیادہ خود ہندوستان کے لئے خطرہ بنتا جارہا ہے۔ نفرتوں کے ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آنے والے مودی سے محبتوں کے پھولوں کی توقع رکھنا ہی بے وقوفی تھی جس نے گجرات کے وزارت اعلیٰ کے دوران ہزاروں مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے تھے اسی مودی نے گجرات ماڈل کا استعمال اب دہلی میں کیا اور اس کے بعد ہر اس صوبے اور شہر میں کرتا جائے گا جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اس کے سر پر مسلمانوں کا خون سوار ہو گیا ہے اب مودی ہندوستان کے مسلمانوں کو جہاد کی جانب مائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کیا مودی کا ہندوستان ایک اور شاہ ولی اللہ کے آمد کا تقاضا کررہا ہے؟ کیا انہیں ایک اور ریشمی رومال کے طرز کے تحریک کی ضرورت ہے۔۔۔؟ ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندو نوجوانوں کے جتھوں کے ہاتھوں مرنے سے بہتر ہے آپس میں اتحاد اور یکجہتی کرتے ہوئے پورے اسلامی جوش و جذبے کے ساتھ انتہا پسند ہندوﺅں کے خلاف سر پر کفن باندھ کر آگے آئیں اور اپنی دفاع کریں یہ ہندوستان اتنا ہی مسلمانوں کا ہے جتنا انتہا پسند ہندو اس کا دعویٰ کرتے ہیں آج ہندوستان کے مسلمانوں کو شیر میسور ٹیپو سلطان کے اس تاریخی جملے ”شیر کے ایک دن کی زندگی گیدڑ کے سو سالہ زندگی سے بہتر ہے“ پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی میں ان کی بقاءمضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں