نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 131

یوکرین پر حملہ مکافات عمل یا مغرب کیلئے آئینہ!

دنیا تیسری عالمی اور ایٹمی جنگ کے تقریباً دھانے پر پہنچ چکی ہے۔ اقوام متحدہ اور دوسرے تمام تر ذرائع استعمال کرنے کے باوجود روس کو قابو نہیں کیا جا سکا ہے۔ روس کی جارحیت اور بے لگامی ہٹ دھرمی روزبروز آگے ہی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ میں اس ساری صورتحال کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھ رہا ہوں۔ میں اسے حالات اور واقعات کا مکافات عمل بھی کہتا ہوں، بالکل اسی طرح سے امریکہ بہادر نے بھی اپنے چند اندھے اور بہرے اتحادیوں کو ساتھ لے کر عراق پر بے بنیاد رپورٹوں کو جواز بنا کر حملہ کردیا تھا اور اس حملے کے نتیجے میں ایک ہنستا بستا ملک عراق لاکھوں لوگوں کے اجتماعی قبرستان میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ اس وقت دنیا کے اس تاریخ ساز نا انصافی پر اقوام متحدہ اور پورے یورپ کو سانپ سونگھ گیا تھا، کسی ایک بھی ملک نے مخالفت تو کجا غیر جانبدار رہنا بھی گوارہ نہیں کیا تھا البتہ یورپ امریکہ برطانیہ اور کینیڈین لوگوں نے ضرور اس تاریخ ساز نا انصافی اور بربریت کے خلاف مظاہرہ کیا تھا اور وہ بش کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ کیا اس وقت بمباری سے مارے جانے والے انسان نہیں تھے جو آج یوکرین پر روسی حملے کے خلاف پورا یورپ سراپا احتجاج بن گیا ہے؟ اگر عراق پر حملہ کے وقت بھی اسی طرح کی غیرت اور جرات و ہمت کا مظاہرہ کیا گیا ہوتا تو آج روس سمیت کسی بھی ملک کو کسی دوسرے کمزور ملک کی خودمختاری پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہوتی لیکن افسوس کے یہاں پر ہر چیز کے الگ الگ پیمانے ہیں چونکہ یوکرین اور اس میں بسنے والے اپنوں میں سے ہیں اس لئے ان کا قتل عام کس طرح سے برداشت کیا جا سکتا ہے۔ روس کا یوکرین پر اس وقت حملہ وہ آئینہ ہے جس میں خود اقوام متحدہ اور دوسری بڑی طاقتوں کو اپنا چہرہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ وہی لوگ نہیں ہیں جو پہلے اس طرح کا جرم اجتماعی طور پر عراق کے محاذ پر چکے ہیں اور وہ وہاں لاکھوں بچوں کو یتیم اور لاکھوں عورتوں کو بیوہ کرچکے ہیں لیکن اب جب آگ کے شعلوں نے خود اپنوں کو لپیٹ میں لے لیا تو ان کی چیخیں نکل رہی ہیں اب تو روس پر پابندیاں بھی لگائی جارہی ہیں اس کا سوشل بائیکاٹ بھی کیاجارہا ہے لیکن عراق پر حملہ کے وقت کسی نے بھی اس طرح کی کوئی حرکت کرنے کی غلطی نہیں کی تھی کیونکہ عراق میں بسنے والے نہ تو انسان تھے اور نہ ہی وہ اپنوں میں سے تھے۔ میرا اس طرح سے لکھنے کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ میں کوئی خدانخواسطہ روس کے اس جارحانہ اقوام کو سپورت کررہا ہوں روس کا یہ قدم قابل مذمت ہے اور انہیں لگام دینے اور قانون کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک دنیا کے تمام انسان برابر ہیں، کسی کا بھی خون نہیں بہنا چاہئے، کسی کے ساتھ بھی نا انصافی اور زیادتی نہیں ہونی چاہئے لیکن خدارا الگ الگ پیمانے اور یہ امتیازی سلوک اس طرح کے تباہ کن صورت حال کو جنم دینے کا باعث بنتی ہیں اگر عراق پر حملے کے وقت بھی دنیا اس طرح کا احتجاج کرتی اور اقوام متحدہ اپنا بھرپور کردار ادا کرتی تو اس وقت بھی لاکھوں بے گناہ عراق موت کے منہ میں جانے سے بچ جاتے۔ عراق پر حملہ یوکرین پر روسی حملہ کا پیش خیمہ بن گیا ہے اور اب اگر روس کو بھی اس موقع پر نہ روک اگیا اور اسے سخت ترین سزائیں دی گئیں تو اس کے بعدکوئی اور ملک تائیوان پر بھی اسی طرح کا حملہ کرکے اپنی برتری ثابت کرسکتا ہے لہذا اس طرح کی جارحیت کو روکنا اقوام عالم کے علاوہ بڑی طاقتور کے اور خود اقوام متحدہ کی ذمہ داری میں شال ہے اگر ایسا نہیں کیا گیا تو انسانوں کی اس رنگین دنیا کو وحشیوں اور درندوں کا جنگل بنانے سے کوئی بھی نہیں روک سکے گا اسی طرح سے ایک کے ہاتھوں دوسرے کی خودمختاری اور آزادی پامال ہوتی رہے گی اور اقوام متحدہ کے بھرپور اجلاس صرف تالیوں کے بجانے اور سرکش ملکوں پر پابندیاں لگانے کے سوا اور کچھ بھی نہیں کرسکے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں