فیصلہ ساز قوتوں کو نئے چیلنجز کا سامنا 505

فیصلہ ساز قوتوں کو نئے چیلنجز کا سامنا

اسلام آباد (پاکستان ٹائمز) پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ملک کی گیارہ چھوٹی بڑی جماعتیں ایک چھتری تلے کھڑی ہیں، نہ صرف یہ تمام جماعتیں یکجا ہیں بلکہ ان کا بیانیہ بھی ایک ہی ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ یہ جماعتیں موجودہ حکومت کے خلاف نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اکٹھی ہوئی ہیں۔ سیاست کے کھلاڑی اپنے اپنے انداز میں تیاریوں میں مصروف ہیں اور رنگ میں اترنے کے لئے پرتول رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان خاصے مطمئن نظر آتے ہیں اور لگتا یہی ہے کہ ان کے پیچھے کھڑے اداروں نے انہیں یقین دلا دیا ہے کہ یہ سب مل کر بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ یوں حکومت کے دفاع میں ہمارے دفاعی ادارے کھڑے ہوئے ہیں، یوں عوام کو اداروں کے مدمقابل لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اے پی سی کے بعد نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن اپنی اپنی حکمت عملی بنانے میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن جانتے ہیں کہ موجودہ اپوزیشن عوام کو روڈ پر لانے میں ناکام ہوچکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن پورا کھیل اپنی کپتانی میں کھیلنا چاہتے ہیں جس کے لئے ابھی ملک کی بڑی پارٹیوں کے سربراہ سوچ میں مبتلا ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن کے ہر حربے کو بلیک میلنگ سے تعبیر کرتے ہیں اور کسی طرح کی بھی نرمی برتنے کو تیار نہیں یوں یہ جنگ ٹیبل ٹاک کے بجائے اب دشمنی میں بدلتی دکھائی دے رہی ہے۔ آئندہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات اہم ہیں تاہم اس سے قبل اپوزیشن عام انتخابات کے اعلان کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ نواز شریف دسمبر یا جنوری میں وطن واپس آئیں گے جس سے اپوزیشن میں جان پر سکتی ہے۔ یوں ارباب اختیار دو انتہا پسند بیانیوں میں پھنس گئے ہیں کہ یا تو اپوزیشن سے بات چیت کرکے مسئلہ کا حل نکالا جائے یا پھر اپوزیشن کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہا جائے۔ ایسی صورت میں ملک میں مزید انتشار کی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ سیاسی حکومت عوام اور ریاست کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج پاٹنے کی اہلیت رکھتی ہے یا نہیں؟ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق فیصلہ ساز قوتوں کا اس چومکھی لڑائی میں سب کے سامنے کھڑا ہونے سے گریز کرنا ہی ریاست کو انتشار سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں