ISPR کے ترجمان فوج پر لگائے گئے تمام الزامات سے انکاری 205

ISPR کے ترجمان فوج پر لگائے گئے تمام الزامات سے انکاری

اسلام آباد (پاکستان ٹائمز) ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار نے ایک پریس کانفرنس کے دوران فوج کا موقف پیش کیا۔ انہوں نے صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک منظم تحریک چلائی جا رہی ہے، کچھ ریٹائر افسران کی ویڈیوز بھی ڈالی جارہی ہیں، یوں عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، ایک سوال کے جواب میں کہ خط والے معاملہ میں کیا موقف ہے انہوں نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کونسل کی میٹنگ میں خط کے مندرجات پر غور کیا گیا تھا، اب موجودہ حکومت نے اس معاملہ کو پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کردیا ہے جس میں فوج اور سویلین عوام کے نمائندے واضح کردیں گے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ کیا فوج نے وزیر اعظم کو تین آپشنز دیئے تھے۔ جس پر ان کا کہنا تھا کہ فوج نے نہیں بلکہ وزیر اعظم ہاﺅس سے کہا گیا تھا کہ یا تو عدم اعتماد کی تحریک کو ختم کرائیں یا وزیر اعظم استعفیٰ دیں یا پھر وزیر اعظم اسمبلیاں تحلیل کرکے نئے انتخابات کا اعلان کریں مگر اپوزیشن اور حکومت کے مابین فوج کی کوشش کے باوجود کوئی معاہدہ نہ ہو سکا۔ پوچھا گیا کہ آیا وزیر اعظم ہاﺅس میں کچھ فوجی افسران کی آمد ہوئی تھی اور کچھ بدمزگی کی خبریں آرہی ہیں جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے تمام خبروں کو اور بی بی سی رپورٹ کو بے بنیاد قرار دیا۔ اُن سے پوچھا گیا کہ فوج سیاستدانوں سے کیوں ملتی رہی جس پر ان کا کہنا تھا کہ نہ میں اور نہ آرمی چیف کبھی کسی سے ملنے گئے بلکہ آرمی چیف سے کچھ حکومتی ارکان ملنے آئے تو اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں ان معاملات سے دور رکھا جائے۔ اُن سے سوال ہوا کہ آپ اگر اب نیوٹرل ہیں تو کیا پہلے آپ سیاست میں مداخلت کرتے رہے ہیں۔ اُن کا جواب تھا کہ ہمارے سیاست میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت ہے تو وہ سامنے لایا جائے۔ واضح رہے کہ آج وہ تمام افراد جنہوں نے فوج کو بُرا بھلا کہا یا وہ لوگ جنہوں نے نعرہ لگایا یہ ”جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے“ وہ سب آج موجودہ حکومت میں شامل ہیں اور حال ہی میں نواز شریف نے ایک بار پھر جنرل باجوہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کو ماضی میں ہونے والے تمام معاملات کا جواب دینا ہوگا انہوں نے فیض حمید اور جنرل باجوہ دونوں کو موجودہ حالات کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں فوج ایک ایسے جال میں پھنس چکی ہے کہ جہاں سے نکلنا شاید اب فوج کے لئے بھی ممکن نہ ہو اور آنے والا وقت ملک میں خانہ جنگی کو جنم دیتا دکھائی دے رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں