Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 642

آخری ٹرین

خیال تھا کہ پاکستان کے شروع کے دور کے بارے میں کچھ لکھا جائے کہ آزادی ملتے ہی سیاست دانوں اور عام لوگوں کا کیا ردّعمل تھا ۔پھر اچانک ذہن اس ٹرین کی طرف چلا گیا جو انقلاب ایران کے دوران زاہدان سے پاکستان آنے والی آخری ٹرین تھی۔اس ٹرین کا حصول اور اس میں بیٹھنے کی جدوجہد کو یاد کرتے ہی ایسا محسوس ہوا کہ اس ٹرین اور پاکستان بننے کے فورا” بعد کے حالات میں ضرور کوئی قدر مشترک ہے۔انقلاب ایران کے دوران ہم ایران میں ہی تھے اس ٹرین کی سواری سے قبل انقلاب کے پس منظر پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔شہنشاہ ایران کی بربادی ایک عذاب الہی’ کی ہی صورت ہے۔عوام پر ظلم ملک کی دولت کا برابری کی بنیاد پر تقسیم نہ ہونا شہنشاہیت قائم رکھنے کے لئے ساوک جیسی دہشتناک فورس اور سب سے بڑھ کر انسانیت کی تذلیل شاہ ایران نے اپنی دو بیویوں کو صرف اس بنائ پر طلاق دی کہ وہ اولاد نرینہ یعنی تخت کا وارث پیدا نہ کرسکیں اور تیسری بیوی فرح دیبا سے تخت کا وارث لڑ کا پیدا ہوا لیکن قدرت کا انصاف دیکھئے اس لڑکے کو تمام امور سلطنت سکھائے گئے شمشیر زنی،گھڑ سواری اور تمام شاہی لوازمات سے اسے آگاہ کیا گیا اور جب وہ بالکل سلطنت سنبھالنے کے قریب تھا تو زوال آگیا اور اس کا بیٹا کبھی بادشاہ نہ بن سکا۔امریکہ کی شہہ پر ایران پر حکومت کرنے والا شاہ مطمئن تھا کہ اسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے لہذا اس کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا ہے لیکن شائید اسے یہ احساس نہ ہوسکا کہ امریکہ نے ہمیشہ اپنے فائدے کے لئے جس کو گلے لگایا ہے اور اس پر نوازشوں کی بارش کی ہے وقت نکل جانے پر اس سے اس طرح منہ پھیرا ہے کہ پھر اسے دنیا میں کہیں سر چھپانے کی جگہ نہ مل سکی۔لہذا اس نے بھی مصر میں کسمپرسی کے عالم میں دم توڑا اور اسے اس کے کمرے میں ہی دفنادیا گیا۔ہم انقلاب ایران کے دوران وہیں تھے اور میں اور کچھ اور پاکستانی جو وہیں دوست بنے تھے شہنشاہ ایران کی طرح مطمئن تھے کہ اس کی حکومت کو کچھ نہیں ہوسکتا اور شاہ ان حالات پر قابو پالے گا کیونکہ اس کی طاقتور فوج پولیس اور سب سے بڑھ کر ساوک ناقابل تسخیر تھے اور پھر امریکہ کی سپورٹ بھی تھی لیکن ہم آنے والے طوفان سے بے خبر تھے ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ شہنشاہ ایران ملک چھوڑ کر چلاجائے گا اور حالات اس قدر خطرناک اور خوفناک صورت اختیار کرلیں گے۔شہنشاہ کے ملک سے جاتے ہی لاقانونیت اور دہشت گردی کا جو خوفناک مظاہرہ ہوا اور ان آنکھوں نے جو کچھ دیکھا وہ بیان سے باہر ہے۔ہم اس وقت بندر عبّاس میں تھے جب حالات کی سنگینی کا احساس ہوا میں اور میرے دو ساتھی اپنا سامان سمیٹ کر افراتفری میں وہاں سے بھاگے شکر ہے ہمیں زاہدان جانے والی بس مل گئی لیکن بس والے نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ زاہدان تک پہونچانا حالات پر منحصر ہے۔ہنگاموں ،گولیوں اور قتل و غارت سے گزرتے ہوئے رکتے رکاتے راستے میں خمینی کے شہر قم سے بھی گزر ہوا بڑی مشکل سےبارہ گھنٹے کا سفر دو دن میں طے کرکے زاہدان پہونچے اور یہاں آکر سکون ہوا کیونکہ یہاں کے حالات بہت ہی حیران کن تھے اور مکمّل امن نظر آرہا تھا بہت سے کاروبار بھی کھلے ہوئے تھے ۔بہرحال ایک ہوٹل میں پڑاو¿ ڈالا شام کے چھ یا سات بجے تھے ہمارے پاس کچھ ایرانی کرتومان تھے سوچا کرنسی ایکسچینج سے پاکستانی کرنسی میں بدلوالیں۔لہذا ہوٹل سے باہر آکر ایک کرنسی ایکسچینج پہونچے ہم جیسے ہی کرنسی ایکسچینج میں داخل ہوئے تو دیکھا سامنے چار پانچ اشخاص بڑی بڑی پگڑیاں باندھے بیٹھے ہیں بعد میں پتہ چلا یہ پاکستانی ہیں اور کوئٹہ کے رہنے والے ہیں اور یہ اسمگلر تھے ان کے ہاتھوں میں بڑ ے بڑے بیگ تھے جو پاکستانی نوٹوں کی گڈّیوں سے بھرے ہوئے تھے ان پر نیشنل بنک پاکستان کی سیل بھی لگی ہوئی تھی۔بہرحال یہ نہیں پتہ چلا کہ وہ لوگ یہ نوٹ کیوں لئے بیٹھے تھے شائید کرنسی اسمگل ہورہی ہو ان میں سے ایک نے ہماری طرف دیکھا اور کہنے لگا آپ لوگ پاکستان جارہے ہو اثبات میں جواب پر وہ کہنے لگا اس وقت تمام راستے بمعہ ائیر پورٹ بند ہیں صرف ایک پاکستانی ٹرین ہے جو زاہدان کے ٹرین اسٹیشن پر کھڑی ہے اور یہ آخری ٹرین ہے تمھاری خوش قسمتی ہوگی اگر اس میں جگہ مل گئی کیونکہ ٹرین اسٹیشن کا دروازہ بند ہے اور صبح چھ بجے کھلے گا بہت سارے لوگ پہلے ہی دروازے پر بیٹھے ہیں اگر تم لوگوں نے یہ ٹرین لینا ہے تو رات بھر اسٹیشن کے باہر بیٹھنا ہوگا اور صبح ہوتے ہی ٹرین کی طرف دوڑ لگانا ہوگی اسٹیشن کے گیٹ سے ٹرین کی پٹری کافی فاصلے پر ہے باقی تمھاری قسمت اگر یہ ٹرین تمھیں نہیں ملی تو پھر معلوم نہیں کب تک تم یہاں پھنسے رہو۔ان کی باتیں سن کر ہماری تشویش میں اور اضافہ ہوگیا پھر یہ طے پایا کہ ٹرین اسٹیشن پر رات بھر بیٹھا جائے لہذ ا ہم لوگ ٹیکسی لے کر ٹرین اسٹیشن پہونچ گئے۔یہ ٹرین اسٹیشن پاکستان کی ہی ملکیت تھا اور جگہ جگہ پاکستان ریلوے لکھا تھا پورا اسٹیشن ہرے اور پیلے رنگ سے رنگا ہوا تھا بہت بڑے سے گیٹ پر تالا لگا ہوا تھا ہم لوگ بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ باہر بیٹھ گئے کڑاکے کی سردی تھی کمبل اوڑھے رات سوتے جاگتے گزری صبح چھ بجے پھاٹک کھلا اور لوگ ایک دوسرے کو دھکّا دیتے ہوئے ٹرین کی طرف بھاگے لہذا ہم نے بھی دوڑ لگادی لیکن جب ٹرین تک پہونچے تو ٹرین پہلے ہی بھرچکی تھی پتہ نہیں کہاں سے لوگ آکر پہلے ہی سے ٹرین میں بیٹھ چکے تھے۔سیٹیں ملنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ہم گھبراہٹ میں ادھر ادھر بھاگ رہے تھے لیکن ٹرین میں چڑھنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ٹرین کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ پریشانی کے عالم میں سوچ رہے تھے کہ اب کیا کریں کہ ایک شخص ہماری طرف آیااس کا حلیہ بالکل ان لوگوں جیسا تھا جو ہمیں کرنسی ایکسچینج میں ملے تھے۔اس نے اپنا تعارف علی کے نام سے کروایا اور صاف بتادیا کہ وہ اسمگلر ہے اس نے پوچھا کیا ہمارے پاس پاسپورٹ ہیں ہم نے کہا ہاں تو اس نے کہا کہ اسے ہماری مدد کی ضرورت ہے۔پھر ہمیں معلوم ہوا کہ آدھی ٹرین پر تو اسمگلروں کا قبضہ ہے ٹرین کا ڈرائیور بھی ان کے ساتھ ملا ہوتا ہے اس نے کہا کہ اس کے پاس مال بہت زیادہ ہے کیونکہ یہ آخری ٹرین تھی اور اسے اندیشہ ہے کےاس مرتبہ اس کا کافی مال ضبط ہوجائے گا لہذا وہ چاہتا ہے کہ ہم اس کا کچھ مال اپنے نام کرلیں اور جو بھی پیسہ دیناپڑے وہ دے گا اس کے بدلے وہ ہمیں ٹرین کی تین آرام دہ برتھ او ر۔کھانا پینا سب دے گا ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا لہذا حامی بھرلی۔ ہم نے دیکھا کہ جن ڈبّوں پر اسمگلروں کا قبضہ تھا وہ ایک ایک ڈبّے میں آرام سے پوری پوری برتھ لئے بیٹھے تھے اور باقی ڈبّوں کی یہ حالت تھی کہ لوگ ایک دوسرے سے جڑ ےبیٹھے ہوئے تھے لیٹنے کا کوئی تصوّر نہ تھا۔یہ ٹرین چار دن میں کوئٹہ پو نچی ہے جبکہ کچھ گھنٹوں کا سفر ہے ڈرائیور کی مرضی ہوتی تھی پوری پوری رات ٹرین نہیں چلاتا تھا اور کہتا تھا آگے خطرہ ہے لوگوں سے پیسے بھی بٹوررہا تھا اور اپنی من مانی کررہاتھا بہرحال اللہ اللہ کرکے کوئٹہ پہونچے۔ علی کا سامان جو ہم نے اپنے نام کیا تھا اس پر کوئی ڈیوٹی نہیں لگی بلکہ رشوت دی گئی اسی طرح آدھی ٹرین جو سامان سے بھری تھی رشوت سے ہی خالی ہوئی بتّیس سالوں سے پیسہ باہر جارہا تھا لیکن ڈیوٹی کی مد میں خزانے میں کچھ نہیں آرہا تھا اور آج تک ایسا ہی ہورہا ہے پاکستان سے اس کی مثال دینے کی کیا وجہ ہے تو غور کریں۔جس طرح دروازہ کھلتے ہی ہم ٹرین کی طرف بھاگ رہے تھے کہ سیٹ مل جائے اسی طرح پاکستان بنتے ہی لوگوں نے اس کی طرف اندھا دھند دوڑ لگادی کسی نے سیٹوں کے آسرے میں تو کسی نے مکانوں زمینوں پر قبضے کی لالچ میں لیکن سوچ بچار نہیں ہوئی نظم وضبط قائم نہیں ہوا کہ آئیندہ کا لائحہ عمل کیا ہو کس طرح اس ملک کو ایمانداری او ر محنت سے آگے لے جانا ہے بس اس ٹرین کی طرح بھاگے جارہے تھے ایک دوسرے کو دھکّا دیتے ہوئے۔ہم جب ٹرین تک پہونچے تو وہ پہلے ہی بھرچکی تھی ،۔پاکستان کا بھی یہی حال ہوا جب دھینگا مشتی کرکے لوگ وہاں پہونچے تو پتہ چلا کہ اہم سیٹوں اور عہدوں پر تو پہلے ہی سے قبضہ ہے انگریز جاتے ہوئے اہم چابیاں تو پہلے ہی اپنے وفاداروں کو دے چکا ہے۔آدھی ٹرین پر اسمگلروں کا قبضہ تھا جو مزے سے سفر کررہے تھے جبکہ آدھی ٹرین میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔پاکستان میں بھی کچھ اہم خاندان تمام وسائل سے فائدہ اٹھاتے رہے اور باقی لوگوں کو دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے ملی۔ٹرین کا ڈرائیور اپنی مرضی سے ٹرین سست روی سے چلا رہا تھا اور پاکستان چلانے والوں کا بھی یہی حال رہا ہے۔پاکستان بنتے ہی کرسی کی لالچ وسائل پر قبضوں کے لئے رسّہ کشی شروع ہوگئی تھی۔لوٹ مار کرپشن کا بازار گرم ہوگیا تھا ان کی نسلیں بھی یہی کررہی ہیں ایک دو کو جیل میں ڈال دینا اس مسئلے کا حل نہیں ہے کوئی کتنا بڑا طاقتور ملک کا مجرم اور دشمن ہے اس کے پیروں میں بیڑیاں ہونا چاہئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں