پاکستان کی عدالتوں نے ایک بہت بڑا ٹرن لیا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جب جہاں سویلین حکمرانوں کا احتساب ہو رہا ہے وہیں فوجیوں کی کرپشن کو بھی سامنے لایا جارہا ہے اُن کے کیسز سول عدالتوں میں چلانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق فوجی اگر کسی کرپشن میں پکڑا جائے تو اُس کا کیس فوجی عدالت میں چلتا ہے اور اُس کا کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ قتل میں ملوث قرار پائے تو بھی پولیس اُسے گرفتار کرنے سے قبل کمانڈنٹ آفس سے ہدایت لینے کی مجاز ہے۔ مگر اب یوں لگتا ہے کہ حالات بدل رہے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے بیانات اور حال ہی میں جسٹس گلزار نے جس طرح اصغر خان کیس کے بارے میں بازپرس کی ہے یہ ایک بڑی تبدیلی کی جانب اشارہ ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ معاملات کو متوازن بنانے کے لئے یہ سب کیا جارہا ہو مگر کچھ بھی ہو زبانیں تو کھلیں۔ یہ کہا تو جارہا ہے کہ سویلین چوروں کی طرح فوجی چوروں کو بھی عدالت میں پیش کیا جائے اور اُن کے کرپشن کے کیسز کو بھی نمٹایا جائے۔
اس سے قبل تو کسی کی مجال نہیں تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف زبان بھی کھولے۔ ایسا کرنا گناہ عظیم تصور ہوتا تھا۔ فوجی جنرلوں کے قصہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کبھی منظرعام پر نہیں لائے گئے۔ ملک دولخت کر دیا گیا مگر کوئی انصاف کے کٹہرے میں نہیں آیا۔ نہ محترمہ فاطمہ جناحؒ، نہ قائد اعظمؒ اور نہ ہی لیاقت علی خان کے قاتلوں کا سراغ مل سکا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو راتوں رات پھانسی دے کر فوج کی چوکیداری میں دفنا دیا گیا۔ بے نظیر کو دن دیہاڑے خون میں نہلا دیا گیا۔ کراچی کے نوجوانوں کو سربازار بال پکڑ کر گھسیٹا گیا، یوں لگا جیسے یہ پاکستانی نہیں بلکہ ہندوستانی فوج کے جوان ہوں اور وہ کشمیر میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ یوں کراچی کو خون میں نہلا دیا گیا۔ آج کراچی سے بچے کچے ادارے لے جانے کا پروگرام بنایا جارہا ہے۔ کراچی سے وفاق کو اسلام آباد منتقل کرنے والے بھی فوجی تھے اور اب کراچی کو خون میں نہلانے والے بھی ہمارے پاک فوج کے افسران ہیں۔ ان سب کا احتساب بھی لازمی ہے۔ پاکستان بھر میں انصاف کا بول بالا ہونا چاہئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ صوبوں کو اختیارات دے دیئے جائیں۔ صوبوں کے وسائل کی تقسیم انصاف سے کی جائے۔ ملازمتوں میں کوٹہ مقرر کیا جائے۔ کراچی کے نوجوانوں کو بھی پاکستانی سمجھا جائے، پاکستان بھر کے نوجوانوں کو مقابلہ کے امتحان کے ذریعہ بغیر کوٹہ سسٹم کے ملازمتوں پر رکھا جائے۔ اچھے اور پڑھے لکھے نوجوان خواہ وہ کوئی زبان بولتے ہوں، ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے تو ملک چند سالوں میں آسمان کی بلندیوں پر پہنچ سکتا ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ انصاف سے فیصلہ کئے جائیں۔ مذہبی جنونیوں کو لگام دی جائے اور فوج سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہو۔ فوج ملکی ترقی کے معاملات سول حکومتوں کے ساتھ مل کر ضرور چلائے مگر سیاسی معاملات سے خود کو دور رکھے۔ سیاسی بدمعاشوں کو کیفر کردار تک پہنچائے اور ملک کو صاف ستھرے لوگوں کے ساتھ مل کر ایک نئی راہ پر گامزن کرے۔
607