Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 440

ارزاں فروختند چہ ارزاں فروختد

اس وقت پاکستان کی جو صورت حال ہے وہ اس قدر خوفناک ہے کہ اگر کوئی محب وطن اس پر غور کرے اور حقائق اس کے سامنے آ جائیں تو اس کی نیندیں حرام ہو جائیں۔ اندرونی طور پر جو خلفشار پیدا کیا جا رہا ہے وہ دراصل ان ملک دشمن عناصر کا ایجنڈا ہے جو وہ پاکستان کے دشمنوں کے اشاروں پر ان کے مالی وسائل کے ذریعے ملک کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں جب کہ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے خود کو اقتدار میں لانے اور معاشی لوٹ مار کے جرائم کو چھپانے کے لئے اقدامات کررہی ہیں۔ یہ عناصر اس بات سے بے خبر نہیں ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لئے پاکستان کے ازلی دشمن انہیں استعمال کررہے ہیں اور ان کے مادی مفادات کو پورا کررہے ہیں یہ اندرون خانہ ان ممالک سے سفارت کاروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں انہیں حساس معلومات فراہم کرتے ہیں اور ان سے ملنے والی ہدایات کے تحت تحاریک چلاتے ہیں۔
دوسری طرف بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخواہ میں فوج کے خلاف تخریبی کارروائیوں میں آنے والی تیزی بھی اسی ایجنڈے کے تحت عمل میں لائی جارہی ہیں۔ بلوچستان لبریشن آرمی، سندھو دیش کے نعرے پاکستان مردہ باد اور پاکستان نہ کھپے کی آوازیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انہیں ان سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے موجودہ حکومت اور فوج کو نیچے لے جانے کے لئے بلند کی جارہی ہیں۔ حالات اس قدر دگرگوں ہو چکے ہیں کہ ذاتی اور سیاسی مفادات کے حصول کے لئے ملک کو بیچنے سے بھی دریغ نہیں کیا جارہا ہے۔ اس وقت پاکستان اندرونی اور بیرونی مخالف قوتں کے درمیان گھرا ہوا ہے اس لئے ایک طرف ازلی دشمن ہندوستان ہے دوسری طرف افغانستان کی پاکستان دشمن پالیسی ہے جن کے نفرت انگیز بیانات ان کے عزائم کی نشاندہی کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر امریکہ ہے جو شروع ہی دن سے نہیں چاہتا ہے کہ پاکستان مضبوط ہو اور اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے اور خاص طور پر جب عمران خان کہتا ہے کہ ہم جنگ میں امریکہ کے طرف دار نہیں ہو ںگے تو گویا اس نے اپنی موت کے پروانے پر دستخط کردیئے ہیں کیونکہ امریکہ جیسا منقسم مزاج ملک یہ گوارہ نہیں کر سکتا ہے کوئی ملک اسے للکارے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں ایک امریکی مصنف کی کتاب
NOT EXIT FROM PAKISTAN:
TORTURED RELATIONSHIP WITH ISLAMABAD
اور اس کا مصنف ہے
DANIEL MARKEY
وہ لکھتا ہے کہ امریکہ پاکستان سے کبھی نہیں جائے گا کیونکہ شروع ہی دن سے امریکہ نے پاکستان کو اپنے ہدف پر رکھا ہوا ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ پاکستان ہر وقت زیادہ سے زیادہ مالی امداد کا تقاضہ کرتا رہتا ہے اور انہیں جس قدر دولت دی جاتی ہے یہ اتنی ہی امریکہ سے نفرت کرتے ہیں یہاں کے لوگ صرف دولت بٹورنے کے لئے امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں جب کہ عمومی رویہ لوگوں کا امریکہ سے نفرت کا ہے اس کے باوجود امریکہ کی پالیسی اس طرح کی ہے کہ بنیادی ضروریات کے سلسلے میں یہ ملک کبھی اپنے پاﺅں پر کھڑا نہ ہو سکے اور اسے ہمیشہ مسائل میں الجھائے رکھتا ہے اس کی مصنف نے تین وجوہ بیان کی ہیں جس کے باعث امریکہ پاکستان کو نہ صرف اپنے دباﺅ میں رکھنا چاہتا ہے بلکہ اس کے دشمنوں کو بھی اس کے خلاف استعمال کرنے کے لئے مالی، تکنیکی اور نفسیاتی امداد فراہم کرتا رہتا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ امریکہ کسی بھی حالت میں پاکستان کو آزاد، خودمختار اور خودکفیل نہیں دیکھنا چاہتا ہے۔
اس میں نمبر 1 پاکستان کی نیوکلیئر اور ایٹمی قوت ہونا ہے اور اس کا جدید میزائل پروگرام ہے، امریکہ نہیں چاہتا ہے کہ پاکستان اسلامی ممالک کی قیادت کا خواب دیکھے جب کہ اس نے اسرائیل کو اس بات کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ اپنا ایٹمی اثاثہ جات پڑوسیوں کو قابو رکھنے کے لئے استعمال کرے جو سب کے سب مسلم ممالک ہیں۔ دوسرے نمبر 2 پر امریکہ کو پاکستانی حکومت اور فوج کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات پر سب سے زیادہ اعتراض ہے، وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان معاشی اور فوجی طور پر امریکہ کے اثر سے باہر نکل جائے اور خود انحصاری حاصل کرلے کیونکہ اس طرح امریکہ گرفت پاکستان کے اوپر سے ختم ہو جائے گی۔ تیسرے نمبر پر امریکہ پاکستان اور افواج کی بے پناہ صلاحیت اور تعداد کو کس طرح سے برداشت نہیں کر پا رہا ہے وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی فوج علاقائی بنیاد پر اور عالمی طور پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اتنی بڑی با صلاحیت اور لڑنے کی تربیت یافتہ فوج دنیا کا نقشہ تبدیل کرسکتی ہے۔ وہ نہیں چاہتا ہے پاکستان اسلامی دنیا کی قیادت اور عالمی سطح پر بلند مقام حاصل کرلے۔
مصنف نے ہا ہے کہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے اور اسے قابو میں لانے کے لئے امریکہ نے ملک کے سیاسی رہنماﺅں، بیوروکریسی، پولیس، فوج اور رینجرز اور سب سے بڑھ کر صحافیوں کو خریدنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ وہ ان افراد کو امریکی ویزوں، دوروں، ان کے بچوں کو تعلیمی اداروں میں داخلوں، اسکالرشپ اور پھر تعلیمی ایام کے خاتمے کے بعد گرین کارڈز کے لالچ دے کر ان کی وفاداریاں خریدتا ہے اور ملک میں اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرتا ہے ان میں نہ صرف سیاسی رہنما شامل ہیں بلکہ مذہبی راہنما بھی اس ”کارخیر“ میں پیش پیش ہیں۔ مصنف کہتا ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے کسی بھی اقدام کو غلط نہیں سمجھتا جس میں ان لیڈروں کے مثل شامل ہیں جنہوں نے امریکہ سے ٹکر لی اور ماضی میں ان کی مثالیں موجود ہیں۔ لیبیا کا قذافی، عراق کا صدام، مصر کا جمال ناصر، سعودی عرب کے شاہ فیصل اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ مصر میں اسلامی انقلاب کے راہنما کا پھانسی دینا بھی اس سلسلے کی کڑی تھی، خود پاکستان میں امریکہ کے کھاتے میں لیاقت علی خان کا قتل اس کے بعد ضیاءالحق نے جب امریکی ہدایات سے روگردانی کی ان کے جہاز کا حادثہ اس کا بین ثبوت ہیں۔ اب عمران خان نے امریکہ کو افغانستان میں ”Do More“ سے انکار کیا ہے تو گویا اس نے اپنی موت کے پروانے پر دستخط کر دیئے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ پاکستان میں بکاﺅ مال کتنی کم قیمت پر فروخت ہو رہا ہے، ہر شخص بکنے کے لئے تیار ہے۔ ایک سروے کے مطابق اس وقت 32 ہزار سے زائد اعلیٰ فوجی و سول اہلکار دوسرے ممالک میں حلف بردار شہریت حاصل کئے ہوئے ہیں اس کے علاوہ سیاسی شخصیات، مذہبی علماءاور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں جب کہ میڈیا کے ”خود ساختہ“ حق کی بات کے لئے افراد بھی اس میں شامل ہیں۔ دوسری طرف اعلیٰ عہدوں پر فائز بے شمار افراد، بیرونی شہریت کے حامل ہیں ان کی فیملیاں امریکہ، کینیڈا، انگلینڈ اور آسٹریلیا میں مقیم ہیں اور یہ افراد ان سے ملنے اور لوٹ کی رقم منتقل کرانے کے لئے یہاں کے دورے کرتے رہتے ہیں امریکہ نے پاکستان کے اراکین صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے لئے تربیتی پروگرام جاری کئے ہوئے ہیں اور انہیں اس کے لئے لاکھوں روپیہ دیئے جاتے ہیں ان کے دورے ترتیب دیئے جاتے ہیں اور ان کی وفاداریاں خریدی جاتی ہیں ایک امریکی سینیٹر نے ایک دفعہ کہا تھا کہ پاکستانی دولت کے بدلے اپنی ماں بھی بیچ دیتا ہے اور کیا یہ بکاﺅ مال اپنی مادر گیتی کو چند ڈالروں کے بدلے فروخت نہیں کررہے اور ان کی اوقات یہ ہے کہ یہ اسے انتہائی سستے دام فروخت کررہے ہیں۔ اب یہ فروخت کنندہ اپنی ”غداریوں“ کی فروخت کے لئے خریدوں تک مال پہنچنے کے لئے دورے کررہے ہیں کیونکہ ”آن لائن“ فروخت میں اب ”سائبر“ کو ”ہیک“ کرنے کا خدشہ ہوتا ہے لہذا گاہک اس کے دروازے پر پہنچ کر مال دیدیا جائے تو دام بھی کھرے اور بلیک اور وائٹ منی کے جھگڑے نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں