۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 153

۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے

بنگلہ دیش نے تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک عالمی معیار کا سمندری جہاز برطانیہ کوبرآمد کیا ہے۔ اس سے قبل وہ ڈنمارک کو بھی اپنا بنایا ہوا بحری جہاز فروخت کرچکا ہے۔ یہ جہاز بنگلہ دیش کی ایک جہاز ساز کمپنی نے اپنے وسائل اور ٹیکنالوجی کے ذریعہ بنایا ہے۔ یہ ایک کثیر المقاصد بحری جہاز ہے جو عالمی معیار کے مطابق ہے۔ یہ 369 فٹ طویل 54 فٹ عریض 27 فٹ پانی کے اندر ہے۔ یہ 4130 ہارس پاور انجن کے ذریعہ 12.5 نوٹیکل کی رفتار سے سفر کر سکتا ہے۔ یہ جہاز 6100 ڈیڈ وزن کا حامل ہے جسے مکمل طور پر نارائن گنج کے ایک شپ یارڈ میں تیار کیا گیا ہے۔ اس جہاز کے حوالگی کی تقریب گزشتہ دنوں ہوئی جب شپ یارڈ کے ڈائریکٹر طارق اسلام نے بتایا کہ اس سے قبل 2008ءمیں انکا تعمیر کردہ ایک جہاز ڈنمارک کو بھی فروخت کیا گیا تھا اور اب برطانیہ کے لئے برآمد کیا جارہا ہے کہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ برطانیہ نے بنگلہ دیش سے جہاز درآمد کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ جہاز ہر قسم کے مہلک ترین وزن کو لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے سوائے نیوکلیئر (ایٹمی) ساز و سامان کے۔ یہ جہاز نہ صرف آبی گزرگاہوں بلکہ برفانی گزرگاہوں میں بھی سفر کر سکتا ہے اور چار فٹ موٹی برف میں بخوبی چل سکتا ہے، جدید ترین ٹیکنالوجی کا حامل یہ بحری جہاز بغیر کسی کیپٹن کے 16 گھنٹے تک سفر کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ماہرین کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش اب جدید ترین بحری جہاز سازی کی صنعت میں عالمی سطح پر تسلیم کیا جاچکا ہے اور جدید ترین بحری جہاز برآمد کررہا ہے جس کی سب سے بڑی مثال برطانیہ کو برآمد کردہ پہلا جہاز ہے۔
بنگلہ دیش کی حکومت کی بہترین صنعتی پالیسیوں کے بدولت جہاں بنگلہ دیش اس ساری دنیا میں اپنی کپڑے کی مصنوعات سب کے سبب ایک ممتاز مقام رکھتا ہے وہاں اب بھاری صنعتوں کے ذریعہ بھی اپنی معیشت کو مضبوط بنا رہا ہے اور ماہرین کے مطابق بنگلہ دیش کی قیادت ملک کو اب ایک مضبوط اقتصادی قوت میں تبدیل کرچکی ہے۔
یہ ایک خبر نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے۔ آج جو لوگ 23 کروڑ احمقوں پر حکومت کررہے ہیں بلکہ درپردہ حاکم ہیں اور جن کی کٹھ پتلیاں خود کو حکمران سمجھتے ہیں نے اس 56 فیصد ملک کے حصہ کو یہ کہہ کر علیحدہ کرنے کی سازش میں جس میں نام نہاد مشرقی پسند وڈیرا، ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھا کہ یہ ایک ایسا کنواں ہے جس کو بھرنا مشکل ہے اور یہی وہ ”اندھا کنواں“ تھا جس کی پٹ سن اس پاکستان کو قیمتی زرمبادلہ دلایا تھا جس کی بدولت یہ اقتصادی طور پر اس قابل ہوا کہ جرمنی جیسے ملک کو کروڑوں ڈالر کا قرضہ دیا تھا۔ مغربی پاکستان کے وہ حکمران جنہوں نے قائد اعظم اور قائد ملت کو اپنے راستے سے ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کیا انہوں نے ہی ان وڈیروں، جاگیرداروں اور زمینداروں نے جن کے بزرگوں نے انگریزوں کی غلامی کرکے بڑی بڑی جاگیریں حاصل کیں اور ان کے کتوں کو نہلا کر خاند بہادری اور خان صاحب کو قابل عزت سمجھے وہ ”سر“ کا خطاب پانے والے چیف ایگزیکٹو اپنے کتوں کو بھی اہمیت نہیں دیتے تھے اور وہ فوجی جنہوں نے برطانیہ کے قومی ادارے سندھرسٹ میں تربیت حاصل کی انہوں نے پاکستانی عوام کے ساتھ وہی سلوک کیا جو انگریز ہندوستانیوں کے ساتھ کرتا تھا۔ انہوں نے پاکستان کے اقتدار پر قبضہ حاصل کرکے ان عناصر کو ساتھ ملایا جو ان کے بوٹ چاٹنے کو ایک اعزاز سمجھتے تھے اور ان بنگالیوں کے ساتھ وہ رویہ رکھا جو ایک آقا اپنے غلاموں کے ساتھ رکھتا ہے۔ یہ بنگالی سیاسی اور تعلیمی لحاظ سے مغربی پاکستان کے حکمرانوں اور عوام سے کہیں بلند تھے اور یہ ان کے سامنے بولتے تھے لہذا شروع دن سے ہی بنگالیوں کو تیسرے درجہ کا شہری سمجھ کر ان کی اہانت کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔
حتیٰ کہ وفاقی وزراءکو اجلاس میں بھی نہیں بلاتے تھے جب کہ قائد اعظم نے جس جوگندرناتھ منڈل کو وزیر قانون نامزد کیا تھا اور اسے ہی دستور بنانے کا اہل سمجھا تھا اس کے ساتھ اس قدر بدسلوکی کی گئی کہ وہ پہلے مشرقی پاکستان چلا گیا اور پھر ہندوستان چلا گیا۔ فوج اور بھٹو گٹھ جوڑ نے اپنے حصول اقتدار کے لئے اس اکثریتی خطے کو مجبور کردیا کہ وہ اپنا راستہ الگ کرے اور اس ”اندھے کنواں“ اور گنگلے اور بھوکے بنگالیوں نے ثابت کردیا کہ صلاحیت ہی کسی ملک کی ترقی کا راز ہے۔ قومی دولت لوٹ کر غیر ممالک میں جائیدادیں بنانے، آسٹریلیاں میں جزیرے خرید کر عیش کرنے اور فوجی افسران کو پلاٹ دے کر فوج کے تحت صنعتیں قائم کرکے اور ان کا ٹیکس نہ دے کر اور اقتدار کی راہداریوں میں اپنے کاٹھ کے الو بٹھانے سے ملک نہیں چلا کرتے۔
آج ہم ساری دنیا میں ذلیل و رسوا ہیں، بھکاری قوم کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر ہم قوم نہیں بلکہ لوگوں کا ایک ہجوم جہاں ہر افراد لوٹ مار، چوری، ڈاکے اور اپنا گھر بھرنے میں مصروف ہے اور اب تو برسرعام اور ٹی وی پر اس ملک کے لئے کہا جارہا ہے کہ فوج تباہ (اب یہ کرائے کے فوجی ہیں جو مال دے اس کی طرف سے قتل و غارت کریں ان کی چوکیداری کریں) ایٹمی حیثیت ختم ہونے کو اور ملک کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے۔ آج بنگلہ دیش کی ترقی سے یہ شعر مجسم ہو کر سامنے آگیا۔
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں