بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 380

ارکان اسمبلی یا بھیڑ بکریاں

سینٹ الیکشن کا معاملہ ہمارے ارکان اسمبلی اور ہمارے اداروں کے چہروں سے پردہ ہٹانے کے لئے کافی ہے کہ کس طرح ذاتی مفادات کی بھٹی میں ہمارے ارکان اسمبلی جل جل کر خاک ہو رہے ہیں۔ برسوں عوام کا خون چوسنے کے باوجود بھی ہمارے سیاستدانوں اور اداروں کو نہ شرم ہے اور نہ حیا۔ حکومتی ارکان ہوں یا اپوزیشن، سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں اور کرپشن میں سر تا پاﺅں ڈوب چکے ہیں۔ نہ سپریم کورٹ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو رہا ہے اور نہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ رہا سوال عسکری اداروں کا تو وہ بھی خاموش تماشائی بنے ان بھوکے کتوں کی لڑائی میں سازشوں کے ذریعہ اپنی بقاءاور سلامتی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ غریب عوام کی دادرسی کب، کیسے اور کیونکر ہو سکے گی۔ نیب کی جانب سے ڈھیروں کیسز، کروڑوں روپیہ کی بربادی، کیسز قائم کرنا اور پھر کیسز واپس لینا کس کے اشاروں پر ہو رہا ہے۔ اب عوام سے ڈھکا چھپا نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ”بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا“۔
ہمارے فوجی جنرل سیاستدانوں کے احتساب میں تو پیش پیش ہیں مگر اپنے اندر چھپی کالی بھیڑوں کے احتساب کے لئے تیار نہیں۔ یہی تفریق ہے کہ جس نے پکڑے گئے چوروں کو بھی زبان دے دی ہے اور یوں احتساب کا خوف ہر ایک کے دل سے دور ہو چکا ہے۔ چوروں کا پورا ٹولہ جو قیام پاکستان کے آغاز سے ہی اپنے مفادات کے لئے پوری پوری بازی پلٹتا چلا آرہا ہے آج بھی اسی طاقت اور فرعونیت کے ساتھ مصروف عمل ہے اور یوںعوام کے مسائل کا حل کرنے والا کوئی نہیں۔
پاکستان اپنی جغرافیائی حدوں کا فائدہ حاصل کرنے کے باوجود معاشی طور پر مستحکم نہیں ہو پا رہا یا ہونے نہیں دیا جارہا ہے۔ سی پیک الگ دنیا کی نظروں میں کھٹک رہا ہے اور اسے سبوتاژ کرنے کے لئے بلوچستان کی علیحدگی پسند قوتوں کو ہوا دی جارہی ہے۔ اور حکومت کی جانب سے مذاکرات اور ان کے حقوق دینے کے بجائے انہیں کچلا جا رہا ہے اور برسوں سے ان کے وسائل پر قبضہ کے باوجود انہیں ان کے گھروں میں مقید کر دیا گیا ہے۔ جو اپنے حقوق کی آواز اٹھائے اسے غدار کا لقب دے دیا گیا ہے۔ یوں پاکستان میں بیرونی سازشوں کا جال بچھا ہوا ہے اور نا انصافی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا غبار کسی بھی روز ایندھن بن کر پورے نظام کو خاکستر کر سکتا ہے۔ مگر ہم غفلت میں ہیں اور نہ جانے کب تک نا انصافی کا یہ عمل جاری رہے گا اور نہ جانے کب اور کیونکر حقیقی احتساب شروع ہوگا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی کمزوریوں اور غلطیوں کا خمیازہ ایک بار پھر عوام کو اٹھانا ہوگا اور سابقہ تمام کرپٹ حکمران ایک بار پھر پاکستان پر راج کریں گے اگر اب ایسا ہوا تو عوام یاد رکھے کہ پھر پاکستان کو خانہ جنگی سے کوئی نہیں بچا سکے گا اور نہ جانے پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں