وینٹیلیٹر پر مشکل سے سانسوں کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے شخص کی آنکھیں آہستہ سے کھلیں مگر کمزوری کا ایسا حملہ ہوا کہ اس نے زبردستی زور سے آنکھیں بھینچ لیں۔ اکھڑتی سانسوں کے ساتھ سب سے آسان حل اسے یہی لگا تھا۔
کوئی اس کے اندر رو رہا تھا دھاڑیں مار مارکر۔۔۔ اس نے چپ کرانے کی بہت کوشش کی مگر بے سود۔۔ وہ اس ایک کو چپ کرانے کی انتھک کوشش میں نڈھال ہورہا تھا ایسے میں جہاں بے بسی نے اسے بے طرح جکڑ رکھا تھا۔ دو بزرگ اس کے پاس آکر بیٹھ گئے۔ اس کی ڈھارس بندھی کہ یہ ضرور اسے چپ کروالیں گے۔ آخر ان کا فرض ہے۔ “فرض” اس نے بھیگی آنکھوں سے بزرگوں کو دیکھا یہ تو اسکے والدین تھے۔ انھوں نے پائی پائی جوڑ کر اسے پڑھایا تھا۔ جب وہ مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب کے روتا تھا تو یہ وہی بزرگ تھے جو اس کی راہ کا ہر پتھرچن لیتے تھے۔ ماں کا آنچل بھیگ جاتا تو اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتیں۔ اس نے انتہائی غربت میں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ محنتی تھا پر اس میں اس کی محنت سے زیادہ اس کے والدیں کی قربانیاں تھیں ریاضتیں تھیں۔ پر اس نے کبھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس کا باپ چاہتا تھا کہ وہ پڑھ لکھ کے اپنے ملک میں غریبوں کی خدمت کرے مگر وہ ماں باپ کی ساری اخلاقی اقدار کو پسِ پشت ڈال کر یہ کہہ کر چلاگیا کہ اتنی محنت اس نے اپنا مستقبل سنوارنے کیلئے کی تھی ناکہ غریبوں کی خدمت کیلئے۔ ماں کا آنچل بھیگا پر اب اس سے اس کو ٹھنڈک کی بجائے کوفت ہوتی تھی۔ باپ کی قربانیوں کے آگے اب ایک جوان مرد زیادہ سمجھدار نظر آتا تھا۔ ماں باپ کی تربیت تھی کہ ہر سال وہ اپنی زکوتہ پاکستان ہی بھیجتا تھا۔۔ غریبوں کی خدمت کیلئے۔۔۔
زیادہ کی ہوس کہیں نہیں ٹھہرتی۔ وہ دیارِ غیر میں اپنے پیشے سے بے تحاشا دولت کمارہا تھا۔ اس نے مزید سپیشلائزیشن کی۔ جگہ جگہ بزنس میں انویسمنٹ الگ سے کی۔ وہ بلا کا ذہین تھا اور اس کا ماننا تھا کہ قسمت کی دیوی بری طرح اس پہ مہربان ہے۔ اس نے ایک مشہور بزنس وومن سے شادی کر لی جو عمر میں اس سے بڑی تھی اور بزنس میں اس سے بہت آگے تھی۔ مقصد پورا ہوگیا تھا۔
سفید کپڑوں میں لپٹی ہوئی کپڑوں سے بھی زیادہ سفید ، نیلی آنکھوں والی چالیس سالہ کیری نے اس کے آنسو پونچھنا چاہے پر اس کا ہاتھ اس تک پہنچنے کے بیچ کا راستہ صدیوں میں ڈھل گیا تھا۔ نیلی آنکھوں سے سفید موتی گرے تو اسے یاد آیا کہ اس نے اسے کس قدر ذہنی دباو¿ سے دوچار کیا تھا وہ اس کے سارے بزنس پر قبضہ کرکے اب محض اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس کی دلچسپی اس کے جسم میں ختم ہوگئی تھی۔ بزنس پر ویسے بھی اب اس کا کوئی اختیار نہیں رہا تھا۔ وہ کس کس طرح اسے اذیتیں دیتا تھا، ڈراتا تھا دھمکاتا تھا اور وہ اتنی ذہین ، فطین بزنس صرف ایک عورت کی طرح استعمال ہوئی۔ کیری نے خود کشی کرلی تھی۔ یہ خبر بزنس سرکل پہ بجلی کی طرح گری تھی۔ مگر اس کی سفاکی اور مکاری کا یہ عالم تھا کہ کسی کو اس پہ ذرہ برابر بھی شک نہ گزرا۔۔ کیری کے بزنس پہ قابض ہوکر اسے پیسے کی کچھ خاص فکر نہ رہی تھی۔ اب اس کا دھیان بس جسم تک رسائی میں رہتا تھا اور وہ کہیں قید میں بندھنا نئیں چاہتا تھا سو کئی عورتوں کو جھوٹے وعدوں کے جھانسے میں بہلا پھسلا کے وہ اپنا مقصد پورا کرلیتا اور پھر بعد میں کوئی وعدہ تک پورا نہ کرتا۔ اس کے ارد گرد بدبو پھیلنا شروع ہوگئی۔ پر وہ روتا رہا۔۔ لیکن بدبو بہت شدید تھی۔ اس کے جسم کے اعضا جل کے گرنا شروع ہوگئے۔ وہ خوف کے مارے ادھر ادھر بھاگنے لگ گیا۔ اس بدبو میں اس کی نظر پڑی جہاں ایک بچے کا سر اپنی پیدائش سے پہلے ٹوٹ کے ہر طرف زمین پر بکھرتا چلا گیا۔ بچہ تڑپ رہا تھا اور بچے سے بھی زیادہ وہ خود تڑپ رہا تھا۔ اسے یاد آیا اس نے کیری کو کبھی ماں نہیں بننے دیا تھا وہ اس جھنجٹ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ اور اک بار جب کیری پریگننٹ ہوگئی تو اس نے بہلا پھسلا کر اسے ابارشن پر راضی کرلیا تھا کہ ابھی ہماری شادی کو ٹائم ہی کتنا گزرا ہے۔ وہ خوف سے لرزنے لگا۔۔
ہر طرف خون تھا، بدبو، آگ تھی۔۔۔ وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہاتھا کہ کہیں سے اس کا کوئی وارث آجائے۔ مگر اس کا تو کوئی وارث تھا ہی نہیں۔ اس نے سر کٹے ننھے بچے کے جسم کو تھامنا چاہا تو اس کے اردگرد اور خون بکھر گیا۔۔۔وہ رو رو کے نڈھال ہورہا تھا۔ “ابا ہر سال زکوتہ بھیجتا تو ہوں اب کیا اپنی ساری تنخواہ غریبوں میں بانٹ دوں ؟ وہ غصے سے اونچی اونچی بول رہا تھا۔ اس کے باپ کو علم تھا کہ اس کا بیٹا دوسرے ملک میں بہت اچھی کمائی کررہا ہے اس نے علاقے کے لوگوں سے وعدہ کیا کہ وہ اس علاقے میں ایک خیراتی کلینک کھولے گا آخر اس کے بیٹے کی دوسرے ملک میں اتنی اچھی کمائی ہے۔ پر بیٹے کے آگے باپ کو محض مایوسی ملی اور علاقے میں وہ شرمندگی سے کسی کا سامنا کرنے جوگا نہ رہا تھا۔ اس کی ماں آئے روز اسے لڑکیوں کی تصویریں بھیجتی رہتی تھی۔۔” پتر تیرا نام لینے والا کوئی تو ہونا چاہئے نا عمر گزر رہی ہے تیری “ وہ سر جھٹک دیتا اسے کسی رشتے میں بندھے بغیر سب کچھ مل جاتا تھا۔
اس کے کانوں میں یہ خبریں آئیں کہ یہاں جو مر جائے گا اسے پلاسٹک کے بیگ میں ڈال کے دفنادیں گے۔ کوئی جنازہ نہیں ہوگا۔ وہ نیم بے ہوشی میں پڑا دھاڑیں مار مار کر رورہا تھا مگر اس کی آواز سننے والا ادھر کوئی نہ تھا” پتر تیرا نام لینے والا کوئی تو ہو” اور ایک سر اس کی انکھوں کے سامنے ٹوٹ کے خون کی شکل میں بکھر جاتا۔۔۔۔ ڈاکٹر اس کے مرنے کا انتظار کررہے تھے تاکہ بیڈ خالی ہو تو کوئی اور مریض یہاں شفٹ کیا جاسکے۔ اس کے باپ کا روتا ہوا چہرہ جھک گیا” پتر میں نے علاقے والوں سے وعدہ کیا ہے۔ لوگوں کو علاج کیلئے دور شہر میں جانا پڑتا ہے “
اسے دفعتاً یاد آیا کہ اس نے کئی اداروں اور جاننے والوں کو خیرات لگارکھی تھی۔ جہاں سے وہ بڑے بڑے پوسٹر، تصویریں اور سرٹیفیکٹیس لیتا تھا اس سب سے بزنس کمیونٹی پر اس کا رعب بڑھ جاتا تھا اور اسے بہت سارے کانٹیکٹس مل جاتے تھے لہذا یہ خیرات اس کیلیے ہر طرح سے سود مند ثابت ہوتی تھی۔ چپ چاپ کسی کی مدد کرنے میں اسے کوئی فائدہ کبھی نظر آیا ہی نہیں۔
اچانک اس کے پاس علاقے کے بزرگ اکٹھے ہونا شروع ہوگئے۔ اس نے دیکھا پچھلے گلی سے چاچا خیر دین جو ہمیشہ اسے مفت کتابیں لاکے دیا کرتا تھا منہ پھیرے ناراض کھڑا ہے۔ ماسی بلقیس جو کڑکتی دھوپ میں اس کیلئے دیسی گھی لیکے آیا کرتی تھی کہ یہ بہت پڑھتا ہے اس کا دماغ خشک ہوجائے گا۔۔۔ وہ اپنی میلی کچیلی چادر سے آنسو پونچھ رہی تھی۔ اس کے چاچا کی بیٹی جس سے اس کی بچپن کی منگنی طے تھی جو اس کی مختلف طرح سے مدد کرتی رہتی تھی بال بکھرائے آنکھیں لال کئے اس کی طرف شکایت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ کیری کا رنگ ایسا سفید پڑچکا تھا جیسے اس میں کبھی خون کا قطرہ تک نہ تھا۔۔۔ ڈاکٹروں نے بھگ دڑ مچادی۔ اسے لگا کوئی مرنے والا ہے۔ وہ ارد گرد بھاگنے کی کوشش کرنے لگا پر اس کا جسم ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تو آنکھیں پتھرانے لگیں۔ اس نے دیکھا ڈاکٹر پلاسٹک بیگ لے کر آرہے ہیں اسے بڑا ترس آیا کہ کون ہے بیچارہ جو بغیر کفن کے دفنا دیا جائے گا۔ ہائے اتنے بڑے ملک میں کسی کو کفن بھی نہیں جڑا۔۔ اس کی ماں دھاڑیں مار مار کر رونے لگی اور باپ کا سر جھکتا چلا گیا۔۔۔ اسے یقین تھا وہ ٹھیک ہوجائے گا اس کی صحت بہت اچھی تھی ہر طرح سے فٹ تھا عمر بھی صرف اڑتالیس سال ہی تھی۔ اس عمر میں وبا سے واقع ہونے والی اموات کا تناسب بہت کم تھا۔ پتہ نہیں کیوں اسے خوف آنے لگا۔ اسے جھرجھریاں آنے لگیں۔ جسم کپکپانے لگا۔ اس نے سب روتے بلکتے ناراض چہروں کی طرف دیکھا۔ پر کوئی اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔۔ ہر طرف آگ تھی، بدبو تھی، خون تھا۔۔۔اس نے ماں کا اڑتا آنچل تھامنا چاہا۔۔۔ پر آنچل تک ہاتھ جانے سے پہلے کسی نے وینٹیلیٹر اتار دیا۔۔۔
397