1935ءکے انڈین ایکٹ کے تحت پاکستان کے اور اردو ادب کے سب سے نامنور ادیب سعادت حسین منٹو کے خلاف ان کے افسانہ ”بو“ پر کچھ با اخلاق لوگوں نے مقدمہ قائم کرکے معاملات کو عدالت کے حوالے کیا۔ اس موقع پر ایک ادیب نے منٹو سے کہا کہ لاہور کے کچھ صفائی کرنے والے طبقہ کے لوگوں نے عدالت میں آپ کے خلاف یہ شکایت درج کرائی ہے کہ آپ نے ایک اسانہ ’بو“ لکھا ہے جس کی بدبو دور دور تک پھیل گئی ہے۔ منٹو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، کوئی بات نہیں، میں ایک افسانہ ”فنائل“ لکھ کر ان کی شکایت دفع کر دوں گا۔ تو عدالت بھی مطمئن ہو جائے گی۔
1935ءکے اس انڈین ایکٹ نے سعادت حسین منٹو کا تو کچھ نہ بگاڑا ہو مگر پاکستان کے قانونی نظام کا حلیہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ کسی بھی معاشرے میں قوانین بنانے کا مقصد اس معاشرے کے تمام طبقات کا یا افراد کے حقوق کو تحفظ دینا ہوتا ہے یعنی کوئی طاقتور کمزور کے حقوق کے نقصان نہ پہنچا سکے جیسا کہ ان مغربی ممالک کے نظام انصاف میں ہے جہاں کا نظام، نظام انصاف کمزور اور مظلوم طبقات کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس معاشرے میں نظام انصاف کی بہتری کے لئے مسلسل کوششیں جاری و ساری رہتی ہیں۔ اب جیسا کہ پاکستان میں دھاندلی کی تحقیقات کے لئے کمیشن قائم کیا گیا ہے اور پارلیمنٹ میں نظام انتخاب میں اصلاحات کے لئے پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی ہے مگر یہ تمام مقاصد مخصوص نوعیت کے ہوتے ہیں جن کا ہمارے عوام یا کمزور طبقات کے مفادات کا تحفظ نہیں ہو پاتا ہے۔
اگر جائزہ لیا جائے تو 1935ءکے انڈین ایکٹ کے تحت قائم ”عدالتی نظام انصاف“ کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر نظر آتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد اس ملک کا نظام انصاف کمزور سے کمزور ہوتا چلا گیا اور آہستہ آہستہ اس نظام انصاف کے بچے کھچے ڈھانچے سے مفاد یافتہ طبقات فائدے اٹھانے لگے اس طرح ابتدائی زمانے سے ہی نظام انصاف کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا گیا اور مفاد یافتہ گروہ مضبوط سے مضبوط ہوتے چلے گئے۔ جو طاقتور تھا اس کو انصاف اس کی قوت کے مطابق یا مرضی کے مطابق ملتا رہا جو کمزور تھا وہ انصاف کی خاطر نسل در نسل ایڑیاں رگڑتا رہا اس طرح طاقتور گروہ اور طاقتور ہوتا ہوا۔ مافیا کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ قائد اعظم کے انتقال کے بعد لیاقت علی خان کے قتل کے اسباب جاننے والا عدالتی کمیشن شروع سے ہی ناکام بنا دیا۔
ایوب خان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس طاقتور گروہ کی مضبوطی کا اندازہ مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس منیر کے فیصلے سے لگایا جا سکتا ہے۔ ضیاءالحق کے نظریہ ضرورت اس نظام انصاف کو عریاں کردیا۔ اور یہ مزید ننگا بھٹو کے مقدمہ سے ہو گیا۔ اس طرح یہ نظام انصاف حکمرانوں کے آگے سرنگوں ہوتا چلا گیا اور یوں معاشرتی نظام تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ جس کے ذمہ دار اولین دور کے فوجی حکمران تھے۔ جن کا بھرپور ساتھ اس عدالتی نظام نے دیا ان کی دیکھا دیکھی ہماری بیوروکریسی بھی حکمرانوں کی خوشامدی ہو کر تمام اصول و ضابطے فراموش کر بیٹھی پھر ان پر کاری ضرف پہلے ایوب خان کے دور میں 303 بہترین عہدیداروں کو بیک جنبش قلم فارغ کردیا گیا۔ پھر بھٹو کے زمانے میں 1300 اعلیٰ عہدیداروں کو فارغ کیا گیا۔ یوں نظم و نسق کا نظام بھی کمزور ہوتا چلا گیا۔ یوں سیاسی مفاد پرست حکمرانوں کے ساتھ مل کر مذہبی مفاد پرستوں کو ملا کر حکمرانی کے خواب دیکھنے لگے۔ یوں ملا ملٹری کا بھی اشتراک ہوتا چلا گیا اس طرح پاکستان کا میڈیا بھی وقت و حالات کے مطابق اس کا گروہ کا شریک کار ہوتا چلا گیا یہ تمام گروہ مل کر اشرافیہ کی شکل اختیار کرتے چلے گئے۔ بعد میں پرویز مشرف کے دور میں افتخار چوہدری نے کالے کوٹوں کو ساتھ شامل کرکے اپنی قوت کے مظاہرے کرنا شروع کئے اس طرح وہ میڈیا کو بھی اپنے ہم آہنگ کرتا رہا، بعد میں اس نے مذہب کا نام لینے والے دہشت گردوں کو بھی رعایتیں دے کر اپنا ہم نوا بنانا شروع کردیا۔ پرویز کیانی کی کمزور حکمت عملی کی وجہ سے میڈیا عدالتی نظام اور کالے کوٹوں والوں کے ساتھ مذہبی دہشت گرد مل کر فوج کو آنکھیں دکھانے لگے۔حالت یہ ہو گئی تھی کہ تمام ادارے جس طرح کمزور ہوتے چلے گئے تھے اس طرح وہ فوج کو بھی اپنے سرنگوں کرنا چاہتے تھے ان سب کا اتحاد ایک اشرافیہ کی صورت اختیار کرتا چلا گیا جس کی بنیاد 1935ءکے ایکٹ میں قائم کردی گئی تھی۔ اس لئے اس ایکٹ کو اشرافیہ کا ایکٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔
