امریکہ اور کینیڈا جو دو ایسے ممالک ہیں جہاں انویسٹمنٹ کے ذریعہ یہاں کی شہریت حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ امریکہ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آتے تھے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے ملک سدھار جاتے تھے مگر جوں جوں ملک کے حالات خراب ہوتے گئے، نہ صرف تعلیم کے لئے آنے والوں نے واپس جانا چھوڑ دیا بلکہ جو بزنس مین اُس ملک میں بہترین کاروبار کررہے تھے اور ایک زمانے میں پاکستان کے پاس ”کاٹن کنگ“ ہونے کا اعزاز بھی تھا جو بھٹو دور میں پرائیویٹ انڈسٹریز کو نیشنلائز کرنے کے سبب نہ صرف چھن گیا بلکہ پوری صنعت کو تباہ و برباد کردیا گیا۔ یوں آہستہ آہستہ پاکستان معاشی طور پر بدحالی کی جانب بڑھتا چلا گیا۔ رہی سہی کسر سابقہ حکمرانوں نے پوری کردی جن کے گھروں سے آج دولت کے انبار نکل رہے ہیں۔ یہی لوگ جنہوں نے پاکستان کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ اپنے اولادوں کو ان ممالک میں انہی انویٹسمنٹس کے پروگراموں کا سہارا لے کر یہاں بسانے میں نہ صرف کامیاب ہو گئے بلکہ یہاں کے سسٹم میں بھی ایک مقام حاصل کرلیا مگر کہاوت ہے کہ
Garbage in Garbage out
جیسا دودھ ہوگا ویسی ہی ملائی ہوگی۔ چنانچہ یہاں آنے کے بعد بھی ان لوگوں نے دو نمبری نہ چھوڑی اور ملک کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ بیرون ممالک وہ لوگ آئے جنہوں نے پاکستان میں صنعتی انقلاب برپا کیا تھا۔ ان میں زیادہ تر میمن برادری کے لوگ تھے انہوں نے کروڑوں کا نقصان برداشت کیا۔ مگر مجبوری میں پاکستان چھوڑ آئے۔ مگر چونکہ وہ خاندانی کاروباری تھے چنانچہ انہوں نے یہاں بھی نیک نیتی سے کام کیا اور یہاں بھی اپنا نام بنانے میں کامیاب ہو گئے، یہیں فرق حلال اور حرام کا آجاتا ہے کہ جائز طریقہ سے کمائی گئی دولت سے پلنے والی نسل الگ نظر آئے گی اور حرام کے ٹکڑوں پر پلنے والے الگ۔ آپ کے پاس صرف وہ نظر ہونی چاہئے کہ آپ انہیں پہچان سکیں۔ اچھے برے ہر قوم میں ہوتے ہیں مگر ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ کون کیا ہے۔ ہمیں دولت کے پیچھے بھاگنے کے بجائے یہ جاننا ضروری ہے کہ کون کہاں سے آیا اور اس نے ماضی میں کیا کیا؟ جب تک ہم ان حقائق کو نہیں جانیں گے ہم نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ بیرون ممالک میں بھی دھوکہ ہی کھاتے رہیں گے۔ ہمیں جاننا ہوگا کہ ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو اچھا ماحول دینا ہوگا کیونکہ رہتے تو ہم ان غیر مسلموں کے ملک میں ہیں مگر بحیثیت مسلمان ہمیں شرم سے ڈوب کر مر جانا چاہئے کہ ہر وہ کام کرتے ہیں جو کلمہ گو نہ ہونے کے باوجود بھی نہیں کرتے۔ جھوٹ، فریب، دغابازی، دینی لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو بے وقوف بنانا۔ والدین کے ساتھ نارواسلوک، بیوی پر بے جا تشدد، یہ سب کچھ ہم بحیثیت مسلمان کرتے ہیں۔ ہر مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو دھوکہ دیتا ہے اور یہاں کے سسٹم کی نرمی کا فائدہ اٹھا کر مستقل لوگوں کو لوٹتا رہتا ہے اور یہ کام دن و رات ہو رہا ہے۔ مگر ہم آواز نہیں اٹھاتے۔ ہم اپنے چہار جانب اپنے ہی ہم وطنوں کو لٹتا دیکھ رہے ہیں مگر ایسا کرنے والوں کا سوشل بائیکاٹ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ پاکستان میں تو چلیں ہم کہہ دیتے ہیں کہ جہالت ہے۔ فیوڈل سسٹم ہے۔ زبان نہیں کھول سکتے، حق اور سچ بات کرنا گناہ ہے۔ مگر ان ممالک میں آپ کو کس نے روکا ہے۔ ہم کیوں نہیں یہاں کے ممبر پارلیمنٹ سے ملتے اور انہیں نہیں بتاتے کے ہمارے لوگ اپنے ہم وطنوں کے ساتھ کس طرح دھوکہ دہی کررہے ہیں اور انہیں روکنے کی سعی کیوں نہیں کرتے۔ یہاں کے سسٹم میں بہت آرام سے ہمارا ہم وطن اپنا سرمایہ لٹا دیتا ہے اور پھر کورٹ کچہری کے دھکے کھاتا رہتا ہے اور پولیس بھی انہیں تحفظ فراہم کرتی ہے جنہوں نے فراڈ کیا ہو۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو ان لٹیروں سے بچانے کے لئے حل تلاش کرنا ہوگا۔ وگرنہ ایک روز ان فراڈیوں کے کرتوت ہمیں بحیثیت قوم ان ممالک میں ذلت سے دوچار کرائیں گے۔
