۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 311

ایک سانحہ جشن ۔ 1

30 ستمبر تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے جب ارض مقدس کا نام تبدیل کرکے سعودیوں نے اسے اپنے 87 ویں یعنی 1930ءتک ترکی کہلائی (یہ اصلاح طاغوتی قوتوں نے ایجاد کی تھی جسے بعد میں مسلمانوں نے اپنا لیا) مسلمان حکومت کو سازشوں کے ذریعہ جسے خلافت عثمانیہ کہا جاتا تھا جو مسلمانوں کی ایک انتہائی طاقتور حکومت تھی اور کافروں پر اس کا بڑا دبدبا تھا اور پورا یورپ اس کے زیر نگیں تھا۔ امریکہ، برطانیہ اسلام دشمن عیسائیوں اور یہودیوں نے اسے پارہ پارہ کرنے کے لئے ریشہ دوانیاں شروع کیں کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ جب تک خلافت عثمانیہ قائم ہے وہ مسلمانوں کے اقتدار کو ختم نہیں کر سکتے۔ برطانیہ نے ایک ایسے عیسائی لارنس کو اس کے لئے تیار کیا جو عربی زبان کا ماہر تھا اور کوئی اس پر شک نہیں کر سکتا تھا کہ وہ عیسائی ہے یا عربی نہیں ہے۔ اس نے عرب کے لوگوں کو خلافت عثمانیہ کے خلاف یہ کہہ کر گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی کہ تم عربی اور ترک عجمی ہیں (زمانہ جاہلیت کا پرانہ ہتھیار) اور یہ کہ عرب کے حکمران صرف عرب ہو سکے ہیں مگر اس وقت قربوں نے عین اسلام کے مطابق کہ نہ عربوں کو عجمیوں پر اور نہ عجمیوں کو عربی پر فضیلت ہے ان باتوں پر توجہ نہ دی اور ان پر لارنس آف عربیہ کی حقیقت کھل گئی کہ یہ مسلمانوں کا دشمن ہے اور ان کے درمیان تفرقہ پھیلانا چاہتا ہے۔
لارنس آف عربینہ کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے ایک اور شخص کواپنی سازش کے لئے تیار کیا جس کا نام ہمفری تھا۔ اس نے اپنی سازش کے لئے دو لوگوں کا انتخاب کیا ایک شیخ نجدی اور دوسرا نجد کا سب سے بڑا لٹیرا جا حاجیوں کے قافلوں کو لوٹنے میں بد طولیٰ رکھتا تھا اور اس نے ایسا ایک گروہ بنا رکھا تھا وہ تھا ابن سعود۔ ہمفری نے شیخ نجی کو مالی امداد اور ابن سعود کو عرب کا حکمران بنانے کا لالچ دیا پھر کیا تھا ان ملت فروشوں نے انگریز کی سازش کو کامیاب کرنے کے لئے ابن سعود نے انگریزوں ملے ہتھیاروں کی مدد سے خلافت عثمانیہ کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ مکہ اور مدینہ اور طائف میں ہر اس شخص کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جو کہ اس سازش کو اسلام کے خلاف سمجھتا تھا اور ترکی خلافت کا حامی تھا اس قتل عام کی قیادت ابن سعود کی بنائی ہوئی فوج جو انگریزوں کے ہتھیاروں سے لیں اور مالی امداد سے بنائی گئی تھی ادھر جب ترکی نے دیکھا کہ شیخ نجدی اور ابن سعود انگریزوں کے آلہ کار بن کر عرب سے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے درپے ہیں اور خود عرب پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں، مکہ، مدینہ اور طائف میں بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کو قتل کررہے ہیں اور ان کا مال و جائیدادوں پر قابض ہو رہے ہیں نہ صرف بلکہ حرمین شریفین کی حرمت کو بھی پامال کررہے ہیں جو مسلمانوں کا قبلہ اور رسول اکرم کی جائے ولادت ہیں تو اس نے رفع شر کے لئے اعلان کیا کہ وہ اس پاک سرزمین پر قتل و غارت گری کو گوارہ نہیں کرتا لہذا حرمین شریفین کی حکمرانی سے دست بردار ہوئے۔ پھر کیا تھا 23 ستمبر 1930ءپر ارض مقدس عرب پر نجیدوں کا قبضہ ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے مقدر کا ستارہ ڈوب گیا اور ان کا زوال شروع ہو گیا جب کہ حضور کے دور سے عرب جو ”حجاز مقدس“ کے نام سے مشہور تھا کا اسلامی نام بدل کر حاجیوں کو لوٹنے والے ریگستانی لٹیرے کے نام پر سعودی عرب کردیا گیا۔ جنت البقیح اور جنت المعلیٰ میں 1400 سالوں سے قائم شدہ صحابہ کرامؓ اور اہل بیت اطہار کے مزارات پر شیخ نجدی ابن عبدالوہاب کے حکم سے بلڈوزر چلا کر انہیں تاخ و تاراج کردیا گیا بلکہ اس حد جسارت کی کہ گنبد خضرا کو بھی منہدم کرنے کے لئے گرینائیڈ بموں سے گنبد پر حملہ کروایا لیکن ناکام رہا، اب ایک مرتبہ پھر ابن سعود کی اولاد ایک رپورٹ کے مطابق جو برطانوی اخبار ”انڈی پینڈنٹ“ میں شائع ہوئی ہے کہ سعودی شرعیہ حضور کے روضہ کو دوسری جگہ منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے اور سلسلے میں ایک اٹھارہ صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کی گئی ہے، حرم شریف میں جن دروازوں کے نام صحابہؓ اور اہل بیت کے ناموں پر تھے ان کے نام شیخ نجدی نے آل سعود کے خاندان کے افراد کے نام پر رکھ دیئے، پھر کیا تھا، نجدی حکومت قائم ہونے کے بعد یہود و نصاریٰ کو بلا روک ٹوک عرب آنے جانے کی چھوٹ مل گئی، آج بھی مکہ شریف میں انگریزی فوج کا ملٹری بیس قائم ہے اور انہیں نجدی حکومت کی طرف سے ہر قسم کی آزادی دیدی گئی ہے۔ ان پر سعودی قانون نافذ نہیں ہے۔
یاد رہے کہ 30 ستمبر 1930ءکو خلافت عثمانیہ کے خاتمی اور ابن سعود کو عرب کا بادشاہ بنا گیا تھا اس دن عظیم الشان جشن کا اہتمام ہوا جس میں امریکہ، برطانیہ اور دیگر ملکوں کے کافر حکمرانوں نے شرکت کی۔ اور خوب جشن منایا کہ آج انہوں نے مسلمانوں کی قوت کو ختم کرکے ان کے درمیان نفاق کا بیج بو کر دنیا میں انہیں پست اقوام کے مقام پر پہنچانے کا کام سر انجام دیدیا ہے۔ اس دن جو بنیاد رکھی گئی تھی اس کی تکمیل آج شیخ نجدی اور ابن سعود کی اولادوں نے اس کی تکمیل کردی۔ آج سعودی عرب جو ارض مقدس ہے اسرائیل کے لئے کھلا ہوا ہے، نہ صرف یہودیوں کو اس پر بالادستی ہے بلکہ موجودہ حکمران اس پاک سرزمین پر فسق و فجور کے تمام کام سر انجام دے رہے ہیں۔ اپنے خلاف آواز اٹھانے والوں کے سر قلم کررہے ہیں اور اپنا قتدار قائم رکھنے کے لئے پوری ملت اسلامیہ کو داﺅ پر لگا دیا ہے۔ عیسائیوں نے جو سنی مسلمانوں کی اصطلاح ایجاد کی تھی اس پر عمل کرتے ہوئے اپنے ہی ملک کی شیعہ اقلیت کے قتل عام بلکہ اس فتنے کو پورے عالم اسلام کو شعیہ سنی میں تقسیم کرکے کافروں کا ایجنڈا پورا کررہے ہیں۔ یہ یہودی اور نصاریٰ سے مل کر مسلمانوں کے خلاف محاذ بنا رہے ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرکے فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کو غضب کرنے میں مدد دے رہے ہیں اور محض شیعہ ہونے کے ”جرم“ میں ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کے پٹھو بنے ہوئے ہیں مگر وہ یہ بات بھول گئے کہ جب بغداد میں ہلاکو خان نے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرنے کے بعد ان کے سروں کا جو مینار بنایا تھ اس پر سب سے بلندی پر جس کا سر تھا وہ، وہ غدار تھا جس نے تاتاریوں کے لئے بغداد میں داخل ہونے کا دروازہ کھلوایا تھا۔ آج جو حکمران یہودیوں اور نصاریٰ کے غلام بنے ہوئے ہیں ان کا انجام بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں ہو گا جو اپنی قوم و ملت سے غداری کرنے والوں کا ہوتا ہے اور وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے جب یہ لٹیرے سعودیوں، یہ متحدہ عرب امارات کے شیوخ اور دیگر اسرائیل نواز عربوں کو یہودی غلام بنالیں اور مقامات مقدسہ پر بھی ان کی حکمرانی ہوگی کیونکہ یہ قانون قدرت ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے اور سعودیوں کا زوال بڑا عبرت ناک ہو گا۔ یاد کرو صدام کو۔
(لارن آف عربیہ، جس نے ارض مقدس کو غاصب سعودیوں کو حکمران بنانے اور عرب کو ٹکرے ٹکرے کرنے کی بنیاد رکھی جب برطانیہ نے اس کی ان ”خدمات“ کے صلے میں اسے ”سر“ کے خطاب سے نوازنے کی تجویز دی تو برطانوی پارلیمنٹ نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ لارنس ”ولد الحرام“ ہے یعنی اس کے باپ کا کوئی پتہ نہیں ہے بعد ازاں وہ تیز رفتاری سے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے حادثے کا شکار ہو کر مر گیا)۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں