یہ مثال بچپن سے سنتے آئے تھے مگر آج کے دور میں یہ پاک امریکہ تعلقات پر صادق آتی ہے۔ اب امریکا کو پاکستان میں مداخلت ختم کرکے خاموشی اختیار کر لینا چاہئے مگر دنیا کی سپرپاور کو پنگا لینے کی پرانی عادت ہے اور وہ اپنی اس عادت سے مجبور ہے۔ چھوٹے چھوٹے ممالک کو قرضہ کے بوجھ تلے جکڑ لینا اور پھر اپنی من مانی کرنا امریکہ کا پرانا شیوا ہے جو مملکت ذرا زبان درازی کرے یا امریکی ڈالر کی بے ادبی کرے اسے نشان عبرت بنانا امریکنوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ دور کی بات نہیں، معمر قذافی اور صدام حسین کی حالت ہم سب دیکھ چکے ہیں، ترکی کا معاملہ ہمارے سامنے ہے، ایران نشانہ پر ہے اور چائنا کا اپنی کرنسی میں کاروبار کرنے کے خواب کا معاملہ بھی زیربحث ہے۔ دیکھنا ہے کہ امریکہ چائنا سے کیسے اور کیونکر اپنے معاملات طے کرتا ہے کیونکہ دوسری جانب روس امریکہ سے اپنا پرانا حساب چکانے کے لئے اپنے دانت تیز کررہا ہے۔ اسرائیل اسلامی مملکتوں کو ختم کرکے آہستہ آہستہ اپنے پنجے گاڑھ رہا ہے اور قرآن کی پیش گوئی کے مطابق دنیا آخری صلیبی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی ہوس کا قبرستان بھی جلد بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ وہ وقت بھی دور نہیں جب ظالم اور جابر یہودی بھی اسی طرح چن چن کر مارے جائیں گے جس طرح وہ آج اپنی طاقت کے نشہ میں مشرق وسطیٰ کے ممالک میں بے دریغ قتل و غارت گری کے مرتکب ہو رہے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم دنیا میں جو کچھ کرتے ہیں۔ اس کا حساب دینے سے قبل ہماری سانس ہمارے وجود سے جدا نہ ہوگی۔ چنانچہ کسی بھی انسان پر ظلم کرنے سے قبل اس بات کا احساس کرنا اور اس فلسفہ کو سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ Tit for Tat ”جیسے کو تیسا“ ہو کر رہے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ تک راستہ خلق خدا کے ذریعہ ہی جاتا ہے اور جس نے خلق خدا پر ظلم و جبر کیا وہ کسی بھی حالت میں آسان موت نہیں مرے گا۔ اسے شدید جسمانی اور ذہنی اذیت سے گزرنا ہوگا۔ یہی وہ اہم معاملہ ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود کو مجبور ظاہر کیا ہے، وہ رب کائنات کہتا ہے کہ تم نے جس پر ظلم کیا ہوگا تمہارا حساب بھی وہی کرے گا اور جب تک وہ معاف نہیں کرے گا، میں بھی معاف نہیں کرسکتا۔ اب سوچئے، جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ جو ہر شے پر قادر ہے کسی معاملہ میں خود کو بے بس اور مجبور قرار دے، اس کی کیا اہمیت ہوگی؟ ہر بشر کو مکافات عمل سے گزرنا ہی پڑے گا، آج کی سپرپاور طاقت کے زعم میں جو چاہے کرے، دنیا کا کوئی بڑا آدمی دولت کے زعم میں کسی پر کس قدر ظلم کرے، آخرکار اسے انصاف کے کٹہرے میں آنا ہی پڑے گا۔ وہ دنیاوی عدالتوں سے بچ بھی گیا تو اللہ کی عدالت سے بری ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہوگا اور انصاف کا وہ دن بہت قریب ہے۔
610