۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 232

بد ذات افغانی

مشہور فارسی شاعر سعدی سے منسوب ایک شعر ہے، یہ شیخ سعدی کا ہو یا نہ ہو مگر حقیقت کا حامل ہے
اوّل افغان، دوئم کمبوہ، سوئم بدذات کشمیری
ایں کے باشد بھی نیکی نہ کند
اور اس حقیقت کا پتہ ہمیں گزشتہ دنوں دبئی میں ہونے والے کرکٹ میچ میں افغانستان کی شکست کے بعد افغانیوں کی پاکستانیوں کے ساتھ رویہ سامنے آیا۔ یہ نمک حرام اور پاکستان کے ازلی دشمن جنہیں 30 لاکھ کی تعداد میں پاکستان نے پناہ دی اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھا، یہی نہیں بلکہ پاکستان نے روسی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ اور روس کو پسپا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ افغانی جو پاکستانی شناختی کارڈ اور پاکستانی پاسپورٹ کے حامل ہیں، رکیک حرکت سے اس شعر کی عملی تفسیر نظر آتے ہیں اور یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں ہے کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ دشمنوں والا رویہ اپنایا ہے۔
افغانیوں کو پاکستانیوں سے مسئلہ روس کی آمد سے شروع ہونے کو بتایا جاتا ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ افغانیوں کے بغض کو 80 کی دہائی سے شروع کرکے تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے۔ نوزائیدہ پاکستان سے جو ایک مسلمان ریاست ہے بغیر وجہ کے قوم پرستی پر مبنی تعصب ستمبر 1947ءسے ہی چل رہا ہے، ستمبر 1974 کو افغانستان دنیا کا واحد ملک بنا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔ اسی سال ستمبر میں ہی افغان حکومت نے کابل میں افغان پرچم کے ساتھ پختونستان یا پشتونستان کا جعلی جھنڈا لگا کر آزاد پشتونستان کی تحریک کی بنیاد رکھی۔ 1947ءمیں ہی افغان ایلچی نے نوزائیدہ مسلمان ریاست پاکستان کو ”فاٹا“ سے دستبردار ہونے اور سمندر تک جانے کے لئے ایک ایسی راہداری دینے کا مطالبہ بھی کیا۔ جس پر افغان حکومت کا کنٹرول ہو، بصورت دیگر جنگ کی دھمکی دی۔ 1947ءمیں افغانستان میں پاکستان کے خلاف پرنس عبدالکریم بلوچ کے دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپ قائم ہوئے۔
1949ءمیں روس کی بنائی ہوئی افغان فضائیہ کے طیاروں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایسے پمفلٹ گرائے جن میں قبائلی عوام کو ”پشتونستان“ کی تحریک کی حمایت کرنے پر ابھارہ گیا، افغانستان کی پشت پناہی میں فقیر ایپی نے 1949ءمیں پاکستان کے خلاف پہلی گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ 1949ءمیں افغانستان نے ہندوستان کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا جس کے ایک نکاتی ایجنڈا تھا کہ پاکستان کو کسی طرح بھی گھیر کر ختم کیا جائے۔ نومبر 1953ءکو افغانستان کے نئے سفیر غلام یحییٰ خاں طرزی نے ماسکو روس کا دورہ کیا جس میں روس (سوویت اتحاد) سے پاکستان کے خلاف مدد طلب کی۔ مارچ 1955ءمیں افغانستان کے صدر ”داﺅد خان“ نے روس کی شہ پا کر پاکستان کے خلاف انتہائی زہرآلود تقریر کی جس کے بعد 29 مارچ کو کابل جلال آباد اور قندھار میں افغان شہریوں نے پاکستان کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا آغاز کیا جس میں پاکستانی سفارت خانوں پر حملے کرکے توڑ پھوڑ کی گئی، پاکستانی پرچم کو اتار کر اس کی بے حرمتی کی گئی۔ مارچ 1960ءمیں افغان فوج نے اپنی سرحدی پوزیشنز سے باجوڑ ایجنسی پر مشین گنوں سے اور مارٹرز سے گولہ باری شروع کردی۔ جس کے بعد پاکستان ایئرفورس کے 26 طیاروں نے افغان پوزیشنز پر بمباری کی۔ ستمبر 1960ءمیں ہی افغانستان پاکستان کے خلاف شیر محمد مری نے دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپس قائم کئے۔ مئی 1961ءمیں افغانستان باجوڑ، جندول، اور خیبر پر محدود پیمانے کا حملہ کیا۔ 1965ءجب ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کیا تو افغانستان نے موقع غنیمت جان کر دوبارہ مہمند ایجنسی پر حملہ کردیا۔ لوگ حیران رہ گئے کہ انڈیا نے افغانستان کی طرف سے کیسے حملہ کردیا، بعد میں پتہ چلا کہ یہ بدذات افغانی ہیں مگر انہیں مقامی پختونوں نے پسپا کردیا۔ 1972ءمیں افغانستان نے اے این پی کے ناراض پشتونوں اور بلوچ افراد کے ٹریننگ کیمپس بنائے جس میں عدم تشدد کے نام نہاد علمبردار اجمل خٹک بھی شامل تھے۔
1973ءمیں پشاور میں افغان نواز عناصر نے پشتونستان تحریک کے لئے پشتون زلمی کے نام سے نئی تنظیم سازی کی۔ 1974ءمیں افغانستان نے ”نوائے پشتونستان“ کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ فروری 1974ءمیں افغان نواز تنظیم ”پشتون زلمی“ نے خیبرپختونخواہ کے گورنر حیات خان شیرپاﺅ کو بم دھماکے سے اڑا دیا۔ افغانستان کی طرف سے مسلسل سازشوں اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کے بعد بالاخر پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی مرتبہ جواباً افغانستان کے خلاف منظم خفیہ سرگرمیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس طرح یہ بدذات افغانی احسان فراموش کے سرخیل روس کے حملے کے بعد پناہ حاصل کرنے 30 لاکھ سے زائد کی تعداد میں پاکستان آئے مگر ان کی فطرت میں جو بدذاتی تھی وہ قائم رہی، انہوں نے پاکستانی آئی ڈی اور پاسپورٹ حاصل کئے اور ساری دنیا میں پاکستان کے نام کو اپنی بدکرداریوں کے باعث بٹہ لگایا جب کہ پاکستان نے ان کی ہر طرح سے مہمانداری کی اگر پاکستان چاہتا تو افغانستان کی پاکستانی راہداری بند کرکے انہیں تباہ و برباد کر سکتا ہے مگر پاکستان نے یہ عمل کرنے سے گریز کیا۔
آج بھی افغانستان ہندوستان کے ایجنڈے پر کام کررہا ہے اور پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے اور پاکستان میں افغانستان کی سرزمین سے تخریبی کارروائیاں ہو رہی ہیں، طالبان کے اشارے تحریک طالبان پاکستان لوگوں کو خاک و خون میں آلودہ کررہے ہیں۔
نوٹ: کچھ مواد اخذ کیا گیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں