عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 633

بقاءکی جنگ

پاکستان کی سیاست ان دنوں قلی طور پر ”چور مچائے شور“ والا منظر پیش کررہی ہے۔ اپنی جانب بڑھنے والی احتسابی موت ہی ان سارے سیاستدانوں کو دلوں کی قدورتیں دور کرتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب لانے کا باعث بن رہی ہے جس کے ساتھ ساتھ اس فلسفے اور حقیقت کی بھی حرف بہ حرف تصدیق ہو رہی ہے کہ مجرموں کا کوئی ملک کوئی مذہب کوئی برادری نہیں ہوتی۔ ان کا جرم ہی ان کا مذہب ان کا ملک اور ان کا ایمان ہوتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی جھلک ان دنوں پاکستانی اپوزیشن میں بھی نظر آرہی ہے، ہر کوئی ایک دوسرے کو متحد کرکے اپنی جانب بڑھنے والی اس عمرانی موت کو روکنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ میری ذاتی رائے یا خیال میں تو یہ سارے سیاستدان اس وقت اپنی ”بقاءکی جنگ“ لڑ رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر وہ اس جنگ میں جیت جاتے ہیں تو نہ صرف وہ قید و صعوبتوں سے بچ جائیں گے بلکہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت بھی ساتھ رہے گی اور آئندہ اقتدار کے مزے بھی لوٹتے رہیں گے اور ہارنے کی شکل میں وہ بدترین ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔ اس لئے وہ سارے سرجوڑ کر اپنے اوپر آنے والی اس عمرانی آفت سے نکلنے کے لئے سوچ و بچار کررہے ہیں۔ وہ ان دنوں بیک وقت سیاسی اور قانونی دونوں محاذوں پر نبرد آزما ہیں۔ ہر آنے والا دن ان کی مشکلات میں اضافہ کرتا جار اہے۔ اپوزیشن جماعتیں عمران خان کی حکومت کو خالی خزانے کا تحفہ دے کر ان پر ایک طرح سے مشکلات مسلط کرچکی ہیں۔ جس کے نتیجے میں عوام پر پڑنے والے مہنگائی کی وجہ سے وہ عوام کو ایک بار پھر ہتھیار کے طور پر اس حکومت کے خلاف استعمال کرسکیں گے لیکن انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ خود ان کے ہاتھوں تراشے ہوئے بت بھی ایک دن خود ان کے لئے جلاد بن جائیں گے اور ان کے خلاف ان ہی کے ہاتھوں تباہ کئے جانے والے ادارے اس طرح سے متحرک ہو جائیں گے۔ یہ سب کچھ تو ان کے خیال اور خواب میں بھی نہ تھا اسی لئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
ان شور مچانے والوں نے خود کو اور اپنے جرائم کو تحفظ دینے کے لئے جمہوریت کے زیر سایہ سارے حربے استعمال کئے تھے۔ آج وہ سارے ان ہی عدالتوں کے رحم و کرم پر ہیں جنہیں وہ آتھتے بیٹھتے گالیاں دیتے رہتے ہیں۔ یہ سب کے سب اس وقت اپنی بقاءکی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ان کے آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہے۔ آگے بڑھتے ہیں تب بھی موت ہے اور پیچھے کھسکتے ہیں تو تب بھی موت۔ ان کی حالت معذرت کے ساتھ پولیس سے مقابلہ کرنے والے ان ڈاکوﺅں کی سی ہوگئی ہے کہ جنہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ پکڑے جانے کی صورت میں بھی پھانسی یا عمر قید ہے اور مقابلہ کرکے یا تو پولیس والوں کو ہلاک کرکے راہ فرار اختیار کرنا ہے یا ان کے ہاتھوں مارے جانا ہے۔ اس فارمولے کو مدنظر رکھ کر ہی اس وقت ساری اپوزیشن ایک ہوگئی ہے اور سب کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے کہ کسی بھی طرح سے عمران خان کی حکومت کو ختم کرکے اپنی حکومت قائم کروانا ہے تاکہ وہ احتساب کے اس موت کو فوری طور پر روک لے جو انہیں جلانے کے لئے ان کی جانب بڑھ رہی ہے۔
میری اطلاع کے مطابق اپوزیشن کو اس وقت ان تمام ملک دشمن قوتوں کی دست پردہ حمایت حاصل ہے جو ریاست پاکستان کی بالعموم اور عمران خان کی بالخصوص مخالف ہیں اسی وجہ سے پاکستانی میڈیا کے ایک بہت بڑے حصے نے اپنا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں ڈال کر حکومت وقت کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ہے۔ حکومتی ادارے باشمول اعلیٰ عدلیہ آئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہی ہے۔ ایف آئی اے اور نیب کے ہاتھوں آئے روز نت نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار شفاف طریقے سے احتساب کا عمل شروع ہو چکا ہے جس کی وجہ سے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو برطانیہ میں سیاسی پانہ کی درخواست دینا پڑی۔ اس لئے کہ وہ اس طرح کی شفاف احتساب کا کسی طرح سے بھی سامنا نہیں کرسکتے۔ یہی حال اندرون ملک پھنسے سیاستدانوں کا ہے جن کی پوری خواہش یا کوشش تو یہی ہے کہ وہ بھی کسی طرح سے اڑ کر بیرون ملک چلے جائیں اور اسحاق ڈار کی طرح سے وہ بھی سیاسی پناہ کی درخواست دے دیں۔
بقول وزیر اعظم عمران خان کے انہیں شریف خاندان کی جانب سے درخواست آئی ہے کہ ان سے لوٹی جانے والی دولت لے کر انہیں جانے دیا جائے۔ عمران خان کا یہ انکشاف کوئی نیا نہیں، پاکستانی سیاستدان خود پر آنے والی مصیبتوں میں اس طرح کے حربے استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ عمران خان سعودی عرب کے دورے پر گئے ہیں اور کالم کی اشاعت تک یہ واضح ہو جائے گا کہ حکومت پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت پیش آئے گی کہ نہیں۔
فی الحال خالی خزانے سے پیدا کی جانے والی مہنگائی کی تلوار موجودہ حکومت کے سر پر لٹک رہی ہے جس کا کوئی نہ کوئی سودمند حل عمران خان اور اس کی حکومت کو نکالنا ہوگا۔ مٹھی بھر سیاسادانوں کے لوٹ مار کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کی سزا مہنگائی کی شکل میں عوام کو دینے سے گریز کرنا ہوگا جو اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں ان کے ساتھ بے رحمانہ سلوک برتتے ہوئے ان سے لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لینا ہوگی تاکہ ملک میں نہ تو مہنگائی بڑھے اور نہ ہی عوام ان لٹیرے سیاستدانوں کے بہکاوے میں آئیں۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ پورے انصاف سے کام لیتے ہوئے ریاستی دودھاری تلوار ان پر چلائیں۔ جو ان حالات کے ذمہ دار ہیں، غریب عوام پر ٹیکس لگانے اور ضرورت استعمال کی اشیاءکے نرخ بڑھانے سے بھی گریز کریں اس طرح کی معاشی پالیسی بنائیں جس سے عام عوام کی زندگی میں بہتری آئے۔ جب کہ قانون کے جال کو اتنا مضبوط بنائیں کہ وہ کیڑے مکوڑوں کی طرح سے بڑے بڑے جانوروں کو بھی قابو میں لاسکے اور افلاطون کا وہ تاریخی قول غلط ثابت ہو کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے کہ جس میں کیڑے مکوڑے تو پھنس جاتے ہیں مگر بڑے جانور اسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔۔۔
امید ہے کالم کی اشاعت تک بعض مگرمچھ اپنے ٹھکانوں تک پہنچا دیئے گئے ہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں