نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد نظر ثانی کیس کو مسترد کرتے ہوئے نیا بینچ تشکیل دے دیا جو 29 اکتوبر کو بابری مسجد کیس کی سماعت کرے گا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ میں اسماعیل فاروقی کیس 1994 پر نظر ثانی کے لیے کیس کی سماعت ہوئی۔ فریقین کے دلائل سننے کے بعد متنازعہ کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ تین رکنی بینچ میں سے بھارتی چیف جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس بھوشن نے نظرثانی کی درخواست کے خلاف فیصلہ دیا جب کہ جسٹس عبد النظیر نے نظرثانی کی درخواست کے حق میں فیصلہ سنایا۔ تاہم اکثریتی فیصلے کو تسلیم کرلیا گیا۔
بینچ نے بابری مسجد پر 1994 میں اسماعیل فاروقی نظر ثانی کیس کے لیے لارجز بینچ کی تشکیل کرنے کی درخواست کو مسترد کردیا اور بابری مسجد کے اصل کیس کی سماعت کے لیے تین اراکین پر مشتمل نیا بینچ تشکیل دے دیا ہے۔ یہ بینچ بابری مسجد کے مقام پر زمین کے تنازع پر سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑا اور رام للا کے درمیان زمین کی ملکیت کا فیصلہ کرے گا۔
جسٹس اشوک بھوشن نے چیف جسٹس کی غیر موجودگی کے باعث نظر ثانی کیس کا فیصلہ خود پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ اسماعیل فاروقی کیس کے فیصلے کے الفاظ ’ اسلام میں نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد لازمی جز نہیں بلکہ نماز کہیں بھی پڑھی جا سکتی ہے‘ کا مطلب یہ نہیں کہ مساجد کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اس لیے ایودھیا کیس میں اسماعیل فاروقی کیس کے یہ الفاظ اثرانداز نہیں ہوں گے۔
اسماعیل فاروقی نے 1994 میں بنام بھارت حکومت ایک کیس دائر کیا تھا جس کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ ’ مسلمانوں کے لیے نماز ادائیگی کے لیے مساجد کا ہونا ضروری نہیں، گھر پر بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے‘ بابری مسجد کیس میں فریق مسلمان نمائندوں کا خدشہ ہے کہ اسماعیل فاروقی کیس کے فیصلے کو بنیاد بناتے ہوئے بابری مسجد سے مسلمانوں کا حق چھینا جا سکتا ہے اس لیے 1994 کے کیس کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی گئی تھی۔
یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا تھا جب ایودھیا میں 6 دسمبر 1992 کو ہندو جنونیوں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ یہ سنی وقف بورڈ کی ملکیت تھی اور تاریخی حیثیت کی حامل عمارت تھی۔ اس مسجد کو 450 سال قبل 1528 میں مغل بادشاہ بابر کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ مسجد کی شہادت کے بعد پورے ہندوستان میں مسلم کش فسادات برپا ہو گئے تھے۔
دوسری جانب ہندو انتہا پسند جماعت نے بہانہ تراشتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ بابری مسجد دراصل بھگوان رام کی جائے پیدائش پر قائم ہے۔ مغل بادشاہ بابر نے مندر کو گرا کر اپنے نام سے بابری مسجد تعمیر کی تھی۔ یہ ہندوﺅں کے مذہبی مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔ تاہم انتہا پسند جماعت کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکی تھی۔
واضح رہے کہ 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے مذکورہ زمین تینوں فریقوں یعنی رام للا، نرموہی اکھاڑا اور سنی وقف بورڈ میں برابر تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا جس پر فریقین نے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے تین رکنی نیا بینچ تشکیل دے دیا جو 29 اکتوبر کو سماعت کرے گا۔
601