ملک کا سیاسی موسم ایک بار پھر بدلتا دکھائی دے رہا ہے اور دسمبر تک پتوں کے جھڑنے کے ساتھ ساتھ نہ جانے کیا کچھ زمین بوس ہونے کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ لانگ مارچ کی دھمکیاں، ملاﺅں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں۔ دوسری جانب تاجروں کی ملک گیر ہڑتال کی کال، تاجروں کی آرمی چیف قمر جاوید باوجوہ سے ملاقات اور حکومت اور نیب کی شکایات، پھر نیب کی جانب سے معاملات میں لچک پیدا ہونا۔ یہ سب کچھ اتفاقات نہیں بلکہ کسی تبدیلی کی جانب واضح اشارہ ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو کیسز حکومت کے خلاف سردخانے میں پڑے ہوں اچانک عدالتیں نیند سے جاگ کر اُن پر کارروائی شروع کردیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے ملک کے چھپے ہوئے خفیہ کردار سرگرم ہو چکے ہیں اور حکومت کو اشاروں اور کنائیوں میں سمجھا رہے ہیں کہ ”تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو“ یوں اگر حکومت نے حالات کو بھانپ کر اپنا قبلہ دُرست کرلیا تو شاید معاملات کچھ سنبھل جائیں وگرنہ تو ہمیں وزیر اعظم کی کرسی خطرے میں دکھائی دے رہی ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ کون ہیں، اب اس سوال کا جواب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کی امریکہ آمد پر 21 توپوں کی سلامی کسے دی جاتی ہے یا وزیر اعظم کے چائنا کے دورے کے دوران گارڈ آف آنر کسے پیش کیا جاتا ہے۔ عوام یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ تاجروں نے آرمی چیف سے ملاقات کیوں کی اور وزیر اعظم کے پاس جانے سے کیوں پرہیز کیا۔ کھل کر بات کی جائے تو اب تو وکلاءکھل کر کرنل اور جنرل کے خلاف نعرہ لگا رہے ہیں۔ سیاستدان کھل کر فوج کے خلاف بول رہے ہیں۔ فوج پر الزام لگ رہا ہے کہ ملک کو 1971ءمیں دولخت کرنے کے بعد اب فوج بقیہ پاکستان کے ٹکڑے بخرے کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ کشمیر کی صورتحال میں بھی فوج کا کردار نہایت مشکوک رہا۔ کشمیری عوام پاکستان کی حمایت سے محروم رہ جانے کے باعث بہت مایوس ہوئے۔ زبانی جمع خرچ اور پلے کارڈز اُٹھانے کے علاوہ پاکستان کی جانب سے کوئی عمل کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور یوں کشمیر کا معاملہ بھی ہاتھ سے نکل چکا ہے، کوئی مانے یا نہ مانے کشمیر کا سودا بھارت، اسرائیل اور امریکہ کے ٹرائیکا کے نتیجہ میں تقریباً طے پا چکا ہے۔ اور کشمیر کے ڈرامہ کے ڈراپ سین بھی سب کے سامنے ہوگا۔ فوج لاکھ کوششوں کے باوجود اور سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگوا کر انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کے باوجود لگائے گئے الزامات کو عدالتوں میں ثابت نہ کرا سکی ہے۔ اور یوں خفیہ طاقتوں نے اپنے عمل سے ملکی معاملات کو سنگین کردیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا یہ اونٹ کب اور کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
467