تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 445

جشن مادر پدر آزادی

ہمیں مرزا غالب کا واقعہ یاد آرہا ہے جو پہلے بھی تحریر کرچکے ہیں۔ 1857ءجنگ آزادی کے بعد مرزا غالب کو بھی مسلما ہونے کی وجہ سے قید کردیا گیا۔ قید سے رہا ہو کر مرزا اپنے ایک کرم فرما کے گھر رہنے گلے ان کا نام تھا ”میاں کالے خان“۔ ایک روز مرزا کے ملنے والے ان کے پاس آئے اور قید سے رہائی کی مبارک باد دینے لگے۔ مرزا نے جواب دیا کہ کون کمبخت قید سے آزاد ہوا ہے، پہلے گورے کی قید میں تھے اب کالے کی قید میں۔
یہی حال ہماری قوم کا ہے کہ وہ بھی اب تک کالوں کی قید میں ہے ان کو آزادی صرف اس قدر ہی حاصل ہوتی ہے کہ وہ صرف آزادی کے نعرے لگا سکتے ہیں۔ آزادی کی نعمت سے اب تک یکسر محروم ہیں۔ جن کی قید میں ہیں، وہ گورے کے زمانے میں بھی آزاد تھے اب تو وہ مادر پدر آزاد ہیں۔ عام لوگوں کی زندگی میں آزادی کی نعمتیں میسر نہ ہو سکی، پہلے وہ غلام در غلام تھے۔ پہلے وہ جن حاکموں کے غلام تھے وہ حاکم بھی انگریز کے براہ راست غلام تھے۔ انگریز نے اپنے براہ راست غلاموں کی فصل تیار کی تھی۔ جس میں ہندو انداز میں مکمل ہونے دیتا اور اپنے مدمقابل محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف منفی طریقہ نہ استعمال کرتا تو اس کو اس طرح کی تبدیلی کے عمل سے نہ گزرنا پڑتا مگر اس نے تبدیلی کے اپنے بنائے نظام کو قبول نہیں کیا یوں جب ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو اس میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے تقریباً تمام رہنما شریک تھے جن میں مولانا بھاشانی، مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو، اصغر خان، مولانا مودودی، شاہ احمد نورانی، ولی خان، نواب زادہ نصر اللہ خان بھی شامل تھے۔ یہ تحریک اپنے مقاصد میں تو کامیاب ہوئی کہ ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا، نتیجہ جو ظاہر ہوا اس میں پہلے یحییٰ خان کی صورت اور اس کے بعد سانحہ مشرقی پاکستان ہوا پھر اس کے بعد 1977ءمیں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک شروع ہوئی۔ جس میں مفتی محمود، نواب زدہ نصر اللہ، مولانا مودودی، شاہ احمد نورانی، اصغرخان پیش پیش تھے یہ تحریک بھی ذوالفقار علی ھبٹو کو تو اقتدار سے ہٹا دینے کا باعث ہوئی مگر نتیجہ میں ضیاءالحق کی منحوس آمریت جو جبر و استبداد پر مبنی تھی جس کے نتیجہ میں پاکستان نے امریکہ کے اتحادی کی حیثیت سے افغانستان کی جنگ کا آغاز کیا جو کہ دنیا بھر کے جنگجوﺅں کی جنت میں تبدیل ہو گیا اور پاکستان تباہی کے عالم برزق میں چلا گیا۔ بعد میں ضیاءجہنم رسید ہوا۔ یہ وہ تبدیلی تھی جو قدرت کی طرف سے ہوئی اور اس کے مثبت اثرات یہ ہوئے کہ پاکستان کی افواج کا قبلہ درست ہو گیا اس کے بعد ایک طویل عرصہ تک پاکستان کی فوج کے افسروں کی تربیت کے لئے امریکہ پر انحصار نہ کرنا پڑا جس کی وجہ سے فوج میں ملکی مفاد کو پیش نظر رکھا گیا۔
1988ءکے بعد ملکی دفاعی اداروں میں جو مثبت تبدیلی شروع ہوئی تھی اس کی وجہ سے ملک میں ایک سیاسی نظام وجود میں آنا شروع ہوا اور پاکستان افغانستان کی لگائی ہوئی جنگ سے بچتا رہا یوں جب پاکستان کی مسلح افواج نے 1999ءمیں ضیاءکی پالیسیوں سے مکمل یوٹرن لیا تو مغربی طاقتوں کو یہ تبدیلی ایک آنکھ نا بھائی اور امریکہ کے صدر کلنٹن نے بھارت کا دورہ مکمل کرنے کے بعد جب پاکستان کا مختصر دورہ کیا تو اس نے پاکستان کی فوجی قیادت سے ہاتھ ملانا تک گوارہ نہ کیا۔ پھر جب 9/11 کے بعد امریکہ نے اپنی پالیسیوں میں یوٹرن لیا تو اس کو پاکستان کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی۔ جب حکم ہوا کہ ہمارا ساتھ دو تو نہیں تو پتھر کے زمانے میں جانے کو تیار ہو جاﺅ۔ جیسا کہ افغانستان پتھر کے زمانے میں چلا گیا اور یہی حشر بعد میں عراق اور لیبیا کا ہوا پھر امریکہ کا ساتھ دینے کی صورت میں پاکستان کی باری سب سے آخیر میں لگی جو کہ امریکی نقطہ نظر کے تحت سب سے پہلے پاکستان کی باری ہونی چاہئے تھی۔ یوں پاکستان 9/11 کے بعد تقریباً آٹھ نو سال تک پتھر کے زمانے میں جانے سے بچا رہا مگر جب وکلاءکی تحریک کی صورت اس وقت کے حکمرانوں کو اقتدار رضاکارانہ چھوڑنا پڑا تو ملک تیزی سے پتھر کے زمانے کی طرف دھکیل دیا گیا۔
وکلاءکی تحریک کے تحت جو تبدیلی نمودار ہوئی اس میں پاکستان کرپشن کا چیمپئن بن کر ابھرا۔ اب جب کہ نواز شریف کے خلاف عمران خان کی تحریک اور ساتھ ساتھ علامہ طاہر القادری کی تحریک سے بھی یہ ہی نتیجہ ماخوذ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ پاکستان میں تبدیلیوں کے خلاف چلائی ہوئی تحریکوں سے کبھی مثبت تبدیلی کے بجائے منفی تبدیلی ہی نمودار ہوئی۔
پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں کوئی نظام اپنی مکمل شکل نہیں اختیار کر سکا۔ جب بھی جمہوریت آئی ادھوری نا مکمل رہی۔ آمروں نے اپنی آمریت میں جمہوریت کا پیوند لگایا اور جمہوریت میں حکمراں آمر بننے کی کوشش میں مارے گئے۔ نا مکمل آمریت آسکی اور نہ ہی مکمل جمہوریت۔
ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں جمہوریت آہستہ آہستہ چلتی رہی اب اس کے مثبت اثرات نمودار ہونا شروع ہو گئے۔ ہمارے دوسرے پڑوس چین میں مکمل آمریت رہی وہاں پر بھی ترقی کے ثمرات سے دنیا انگشت بدنداں ہے اور ہمارے قریب کی عرب ریاستوں میں چاہے اس کو بادشاہت کہیں یا آمریت، سعوعی عرب سے لے کر دبئی، ابو ظہبی، بحرین، قطر، کویت اپنی اپنی مطلق العنانی کے باوجود ترقی کی منازل طے کررہے ہیں۔ جب عراق میں آمریت کے خلاف پوری دنیا متحد ہوئی تو اور اس ملک میں انتشار پھیلنا شروع ہوا تو اس کے اثرات تمام خطے میں پڑنے لگے۔ لیبیا بھی قذافی کی آمریت میں بہت ترقی کرتا رہا۔ آج وہاں وار لارڈ کا قبضہ ہے۔ اب ہمارے لوگوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کوئی ایک نظام اس کی حقیقی شکل میں اختیار کرلیں۔ حکمراں جمہوریت چاہتے ہیں تو اپنے طرز عمل میں جمہوری اقتدار کو اختیار اس کے لئے اپنے اپنے ذاتی ایجنڈے کو خیرباد کہنا ہوگا۔ جس حب وطنی کا درس دیتے ہیں اس پر من و عن عمل بھی کرکے دکھانا ہوگا۔ اگر جمہوری نظام کو اپنانے کا فیصلہ کرنا ہے تو اپنے اپنے انداز فکر اور اقدامات میں جمہوری انداز اختیار کرنے ہوں گے۔ اس کے لئے یا ہم اعتماد کرکے ایک صاف ستھرا الیکشن کرائیں پہلے اپنی اپنی جماعتوں میں پھر ملکی انتخابات میں تاکہ جتنا بھی مینڈیٹ ملے شفاف ملے۔ جیسا کہ ترکی میں منتخب ہونے والے حکمراں شفاف مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آئے جب وہ حکمراں تمام نقائص سے پاک ہوں گے تو ان کے مینڈیٹ کو عوام بھی قبول کریں گے۔ اور فوج سمیت ملک کے تمام ادارے بھی، اگر ایسا نہیں کر سکتے تو ملک کو تقریباً 30 سال کے لئے آمریت کے حوالے کر دیا جائے تاکہ عام لوگوں کو چین سے زندگی گزارنے کے لئے کچھ سکون کا سانس ملے۔ اور اس انتشار سے قوم کو نجات ملے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں