عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 634

جوالا مکھی

پاکستان میں تبدیلی آتو گئی ہے لیکن بدقسمتی سے وہ ہضم نہیں ہو پا رہی ہے اور اب اس تبدیلی کو روکنے یا اسے ناکام بنانے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں۔ ڈیموں کی تعمیر کا معاملہ ہو یا کرپشن کی روک تھام کا مسئلہ ہو۔ اس کی پورے شدومد کے ساتھ مخالفت کی جارہی ہے۔ جمہور اور جمہوریت کے درمیان پائے جانے والے فاصلوں کو دور کرنے والی حکومت کو اس وقت بہت ساری اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اس ساری صورتحال میں پاکستانی میڈیا بھی حکومت کے خلاف ایک فریق بن کر زرد صحافت کی ایک مہم چلا رہی ہے لیکن تبدیلی کا جھنڈا بلند کرنے والے اس کارواں کی طرح سے آگے بڑھتے جارہے ہیں جو ”کتوں“ کے بھونکنے کو نظرانداز کرکے اپنے مقصد پر نظر جمائے ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور دوسرے سرکاری افسروں کے ہمراہ اپنے پہلے سرکاری دورے پر سعودی عرب روانہ ہوگئے۔ عرصہ دس سال بعد ہی کسی پاکستانی وزیر اعظم کا یہ غیر ملکی دورہ ہے جس میں درباری صحافیوں کا کوئی گروپ نہیں۔ شاید اسی وجہ سے بھی حکومتی امور پر آئے روز تنقید کی جارہی ہے۔ ڈیموں کی تعمیر کے سیدھے سادے معاملے کو بلیک میلنگ کے ہتھیار کے طور پر ایشو بنایا جارہا ہے۔ عام عوام سے زیادہ خود پاکستانی میڈیا کو اس کی حقیقت کا علم ہے کہ یہ اچانک ڈیموں کی تعمیر کے معاملے پر سندھ سے بھوکنے کی ابتداءکیوں ہو رہی ہے؟ سب جانتے ہیں کہ آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کے منی لانڈرنگ کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ جس میں اس طرح کے ٹھوس دستاویزی شواہد ایف آئی اے کے ہاتھ لگ گئے ہیں کہ ان سے بڑا سے بڑا وکیل بھی آصف زرداری کے لئے کوئی راستہ نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا چونکہ ڈیموں کی تعمیر کے معاملے کی شروعات چیف جسٹس ثاقب نثار نے کی ہے اور انہوں نے فنڈ بنانے اور لوگوں سے چندہ دینے کی اپیل کی تھی اس لئے اب وہ سپریم کورٹ کو بلیک میل کرنے کے لئے ڈیموں کی تعمیر کے معاملے پر سیاست کررہے ہیں اگر آج سپریم کورٹ منی لانڈرنگ کیس سے دست بردار ہو جائے تو کم از کم سندھ سے ڈیموں کی مخالفت ختم ہو جائے گی یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر رکوانے کے لئے بھارت ایک عرصہ سے پاکستان کی بعض سیاسی پارٹیوں پر اربوں روپوں کی انویسٹمنٹ کرتا آرہا ہے لیکن ان سیاسی بلیک میلنگ کے باوجود پاکستانی عوام نے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار اور وزیر اعظم عمران خان کی پکار پر لبیک کہہ کر ڈیم فنڈز میں اربوں روپیہ کا عطیہ دینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستان کے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں جب کہ سیاستدانوں نے وزیر اعظم کے اس فلاحی چندہ اسکیم کو خیرات کا نام دے کر تمسخر اڑاتے ہوئے مسترد کردیا ہے چونکہ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے اس لیے یہ سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور ملکی اشرافیہ کے ساتھ ساتھ خود میڈیا کو بھی ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ وہ وزیر اعظم عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں، وہ حکومت اور عوام کے درمیان پائے جانے والے فاصلوں میں تیزی سے پیدا ہونے والی کمی سے بھی پریشان ہیں انہیں گورنر ہاﺅس کے عوام کے لئے کھولے جانے پر بھی تشویش ہے انہیں سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ حکومت کیا کررہی ہے۔
عمران خان کی سادگی کی مہم اور وزراءکے اخراجات میں قدغن کو بھی وہ اچھا خیال نہیں کرتے یعنی موجودہ حکومت کے ہر اس اقدام پر ان سیاستدانوں کو اعتراض ہو رہا ہے جسے عوام میں پذیرائی مل رہی ہے۔ لوگوں کا وزیر اعظم کا فنڈ ریزنگ کے لئے خود عوام کے درمیان آنا چھا لگا۔ پہلی بار ملکی عوام کو احساس ہو رہا ہے کہ ان کا بھی کوئی وزیر اعظم ہے جس کی سوچ اور خیالات ان سے ملتے ہیں جن کے دل میں اپنی عوام کا کوئی درد ہے اور انہوں نے یہ عہدہ سابقہ وزراءاعظموں کی طرح سے انجوائی کرنے کے لئے نہیں لیا۔ بلکہ عوام کی خدمت اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے حاصل کیا ہے۔ عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے ملک میں پیدا کردہ بہت سارے ایشوز اپنی موت آپ ہی مر گئے۔ جن میں سول ملٹری تعلقات کا ایشو بھی شامل ہے اور اب جب حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر آگئے تو دھتکارے ہوئے سیاستدانوں اور میڈیا سے یہ بھی نہیں دیکھا جارہا ہے اور ان کے پیٹ میں بہت بری طرح سے مروڑ اٹھ رہا ہے اور وہ اب یہ ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ عمران خان کو فوج کی حمایت حاصل ہے۔ وہ فوج اور حکومت کی قربت کو عمران خان کی صاف ستھری اور کامیاب سیاست کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ عمران خان کو فوج کا نمائندہ قرار دے کر جہاں خود کو اور اپنے ورکروں کو مطمئن کررہے ہیں وہیں غیر ملکی طاقتوں کو بھی مسیج بھیج رہے ہیں حالانکہ ان کے اس پروپیگنڈے میں کوئی صداقت نہیں۔ حکومت نے کرپشن کی روک تھام کے لئے مہم تیز کردی ہے اور نیب کو بھی فری ہینڈ دے دیا ہے کہ وہ بلا امتیاز سب کے خلاف کارروائی کرے چاہے کسی کا تعلق حکمران جماعت سے ہی کیوں نہ ہو۔ جس کے بعد سے سیاسی ڈاکوﺅں میں ہل چل مچ گئی ہے جن کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں وہ حقائق کا سامنا کرنے میں ناکامی کے بعد اب اپنے وکلاءکے ذریعے ٹیکنالٹیز کا سہارہ لے کر عدالتوں سے ریلیف لے رہے ہیں۔ جن میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی دختر بھی شامل ہے اس طرح سے وہ کرپشن کے بڑے الزامات سے بچ جاتے ہیں۔ حکومت اور وزارت قانون کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں توجہ دیں اور اس خلاءکو پر کرنے میں اپنی توانائی صرف کریں تاکہ آئندہ ملک کا خزانہ لوٹنے والوں کو اس طرح سے مقدمات کی کمزوری کی وجہ سے رہا ہونے کا موقع نہ مل سکے۔ ورنہ خود انصاف ہی احتساب کی راہ کا سب سے بڑا رکاوٹ بنتا رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں