۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 236

خاندانِ غلاماں

یادش بخیر، مملکت خداداد پاکستان اپنی 75 ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ ایک صدی کے مکمل ہونے میں 25 سال ہیں، ان 75 سالوں میں ملک نے اس ریاست نے کیا کیا رنگ دیکھے، یہ ایک تاریخ ہے اور مزے کی بات یہ کہ ابھی ابھی انکشاف ہوا ہے کہ ”اسکی“ پیدائش کے سلسلے میں ہی شروع دن سے ابہام پیدا ہوگئے تھے، اس کی ولادت لوگوں اور تاریخ کے مطابق 15 اگست ہوئی، سن 1947ءمگر بعد میں خیال آیا کہ یہ تو 14 اگست کو ہی تولد ہو گیا تھا، پتہ نہیں کہ نجومیوں یا پیش گوئی کرنے والوں نے ”بڑوں“ کو کیا بتایا کہ یہ تاریخ نحس ہے یعنی 15 اگست لہذا ”بچے“ کو ایک دن پہلے پیدا کئے دیتے ہیں۔ لہذا اس وقت کے سربرائے حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس ”بچے“ کی ولادت کو ایک دن موخر کر دیتے ہیں اور بقول کیسے اس سلسلے میں قائد اعظم کو بھی اعتماد میں لے گیا تھا، اب اس کی تصدیق کرنے والا کوئی نہیں ہے، سو وہ جو کہتے ہیں اگر کوئی دیوار بنیاد سے ٹیڑھی ہو تو وہ اگر آسمان تک تعمیر کردی جائے تو ٹیڑھی ٹیڑھی ہی رہے گی۔
اب لوگ تبصرے کررہے ہیں کہ ہم تو اس کی سالگرہ شروع دن سے ہی غلط مناتے چلے آرہے ہیں سو اس کا کفارہ کیسے ادا کریں، بہرحال کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان چونکہ 15 اگست کو سالگرہ مناتا ہے لہذا ہم پر فرض ہے کہ وہ کچھ نہ کریں جو ہندوستان کرتا ہے لہذا یہ اصول طے ہو گیا کہ ہر وہ کام جو ہندوستان کرتا ہے ہمیں نہیں کرنا، سو ہندوستان نے جمہوریت کو پروان چڑھایا سو ہمیں جمہوریت کی ایسی تیسی کردینی چاہئے بلکہ ہم اس کا ایسا بیڑا غرق کریں کہ دنیا پکار اٹھے کہ واقعی یہ ہندوستان سے مختلف ہیں۔ ہندوستان میں ان لوگوں کو جنہوں نے آزادی کی جدوجہد میں کردار ادا کیا تھا انہیں مان سمان دیا گیا اور ان سے فائدہ اٹھایا گیا، ہم نے کیا کیا، ہم نے ان ضمیر فروشوں، انگریزوں کے کتے نہلانے والوں اور ان کے جوتے چاٹنے والوں کو حکمران بنا کر اور جنہوں نے پاکستان بنایا تھا کو ”باہر کے لوگ“ قرار دے کر رائندہ درگاہ کردیا، سو محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کا قصہ پاک کرکے پھر ”فرزندان زمین“ کے ہاتھوں اس ملک کی باگ ڈور دیدی جو بقول خوش فہم افراد کے پاکستان کا مطلب کیا؟ کلمہ طیب سو وہ مل کن کی شکارگاہ بنا اس کا تذکرہ جناب کرامت اللہ غوری نے اپنی کتاب ”روزگار سفر“ میں بیان کیا ہے، پڑھئے اور 75 ویں سالگرہ کا لطف اٹھائیے۔ انہوں نے لکھا کہ انہیں انگریزوں کی جو ہندوستان میں حکمرانی کرکے ہزاروں میل دور سے آئے تھے کی ڈائریاں اور مخطوطات پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ افسران ڈائریاں لکھنا اپنا فرض سمجھتے تھے اور ان ڈائریوں میں ذاتی احوال نہیں ہوتا تھا کہ کیا کھایا، کیا پیا، کس سے ملا، کس سے تفریحی وقت گزارا بلکہ وہ اپنے زیر نگرانی اور زیر عمل علاقوں کے تہذیبی، معاشرتی، زبانی، رسم و رواج، مذہبی تہوار اور ہر ایک سماجی اور ثقافتی پہلو کا احاطہ کرتے تھے۔ اس علاقے کی زراعت، صنعت، و حرفت کا احوال درج ہوتا تھا اس میں تفصیل ہوتی تھی کہ وہاں کھیتی باڑی کیسی ہوتی ہے اور کیا کیا فصل اگائی جاتی ہے۔ اجناس غلہ کی منڈیاں کہاں کہاں ہیں، حد یہ کہ علاقے میں اگنے والی نباتات اور وہاں پائے جانے والے چرند، پرند تک کا احوال ہوتا تھا لیکن انگریز ایک اور کام بھی کرتا تھا جس میں اس کی کامیابی کا راز مضمر تھا اور اس کا فائدہ وہ آج تک اٹھا رہا ہے۔ وہ وفاداریاں خریدا کرتا تھا اور اس کاروبار میں وہ اس قدر کامیاب رہا کہ کروڑوں لوگوں پر مٹھی بھر افراد نے ڈیڑھ سو سال سے زائد حکمرانی کی اور غداروں کی جو فصل اگائی اس کا پھل آج تک اپنے غلاموں کے ذریعے کھا رہا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ میں نے انگریز افسران کی ڈائریوں میں وہ تفاصیل بھی دیکھی تھیں جو ان وظیفوںکے ضمن میں تھیں جو ہر افسر اپنے علاقوں میں دیا کرتے تھے اور جن کی وفاداریاں شک و شبہ سے بالاتر تھیں لیکن ان وظیفہ خوروں کا تذکرہ انتہائی انتہائی اہانت آمیز اور تضحکہ خیز ہوتا تھا۔ ایسی ہی ایک ڈائری میں جو ملتان ضلع کے افسر نے لکھی تھی ان میں ملتان کے جاگیرداروں اور سجادہ نشینوں کے نام تھے جنہوں نے 1919ءکے جلیانوالہ سانحہ کے بعد مشترکہ ناموں اور دستخطوں کے ساتھ اس وقت پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر، مائیکل روڈ وائر کو تحریر کیا تھا، امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں گورنر ڈائر نے زندہ انسانوں کا شکار کھیلا تھا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کی مسلسل فائرنگ کے نتیجے میں تین سو سے زائد بے گناہ شہری مارے گئے تھے لیکن ڈائر کو افسوس تھا کہ اس کے سپاہیوں کے پاس گولیاں ختم ہو گئیں تھیں۔ اس سلسلے میں ان ضمیر فروش، ملت فروش اور انگریزوں سے وظیفہ خوار دلالوں نے تاج برطانیہ سے اپنی غیر مشروط وفاداری پر فخر کرنے کے بعد لکھا کہ ”ہم نے سرکار برطانیہ کے دور میں جو امن چین دیکھا تھا اور سرکار نے ”باغیوں“ کا جو حشر کیا وہ بالکل جائز تھا اس لئے ہم ”مسلمان“ ہیں اور ہمارا دین ہمیں ”اولیٰ الامر“ کی اطاعت کا حکم دیتا ہے، کربلا میں نواسہ رسول کو شہید کرنے والوں کا استدلال بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے اور بدقسمتی سے آج پاکستان کے حکمرانوں میں ان ہی ملت اور ضمیر فروشوں کی اولادیں اقتدار پر قابض ہیں اور اپنے اباﺅ اجداد کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آقاﺅں کی غلامی کررہی ہیں۔
یوسف رضا گیلانی صاحب برسر اقتدار آیا تو ان کے بزرگ کا لکھا ہوا خط کا بہت چرچا ہوا کیونکہ اس خط کے لکھنے والے اس کے دادا حضوری تھے جب کہ شاہ محمود قریشی کے دادا ابا سرکار انگلشیہ کے فائیں میں سے ایک تھے۔ جاگیرداروں اور سجادہ نشینوں کی یہ فوج انگریز نے 1857ءکی جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لئے بنائی تھی۔ ان ہی بے غیرتوں نے اپنے مزارعوں اور مریدوں کو انگریزوں کی فوج میں بھرتی کراکر مجاہدین آزادی کی سرکوبی کی تھی۔
انہی جانثاران فرنگ کا ایک خاندان پنجاب کا سب سے بڑا جاگیردار گھرانہ ہے جو مدتوں آزادی کے بعد اقتدار پر قابض رہا وہ تھا ”ٹوانہ“ خاندان اور آج بھی اقتدار کی راہ داریوں پر نظر آتا ہے۔ ٹوانہ کی عرفیت کہاں سے آئی؟ یہ راز بھی فرنگیوں کی ہی ڈائریوں سے افشاں ہوا، دراصل انگریوں نے جب ان نام نہاد معززین کے بزرگ سپاہی بھرتی کراتے تھے تو ہر بھرتی پر انہیں دو آنہ کمیشن ملتا تھا، انگریز انہیں (Two Anna) کہہ کر بلاتے تھے۔ یہ دو آنے میں وطن کی غیرت بیچنے والے ہی تھے سو یہی رفتہ رفتہ بگڑتے بگڑتے یا سنورتے سنورتے ”ٹوانہ“ ہو گیا اور ٹوانہ خاندان پنجاب کا سب سے زیادہ معزز اور موقر گھرانہ قرار پایا۔ انہیں غلام زادوں نے جو پاکستان بننے سے قبل یونیسٹ حکومت کے ساتھ مخالفت میں پیش پیش تھے اور ہندوﺅں کی غلامی میں آنے کے لئے تڑپ رہے تھے اس وقت کسی نے انہیں بتایا کہ اگر پاکستان نہ بنا تو ہندو ہندوستان کے ساتھ ساتھ اس خطے میں ریاستیں، جاگیریں اور زمینیں ضبط کر لیں گے لہذا بہتر ہے کہ اس وقت جناح کا ساتھ دو۔ لہذا یہی ہوا، پاکستان بننے کے بعد انہوں نے جناح اور لیاقت علی خان کو ٹھکانہ لگایا اور پھر اقتدار پر قبضہ کیا جس کا تسلسل آج تک جاری اور یہ انگریزوں کے غلام اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہی کردار آج بھی ادا کررہے ہیں اور یہ احمق عوام آج بھی دوآنہ سے ترقی کرکے بریانی کی پلیٹوں اور نان چھولے کھا کر آوے ہی آوے کے نعرے لگا رہے ہیں۔ (جاری ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں