Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 551

خاندان

گھر کا سربراہ جب بوڑھا ہوجاتا ہے تو اس کا اپنا گھر ہی اجنبی ہوجاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں آدمی چاہے کوئی بھی کام کرتا ہو اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنا ذاتی ایک گھر بنائے یا خرید لے اور سوچ یہ ہوتی ہے کہ یہ میں اپنی اولاد کے لئے کررہا ہوں۔ایک متوسط طبقے کا آدمی ساری زندگی محنت کرکے بچّوں کے لئے گھر بناتا ہے لیکن جب وہ چلاجاتا ہے تو اس ایک گھر کے لئے بچّوں میں لڑائی جھگڑے تھانہ کچہری تک نوبت آجاتی ہے لڑکیاں تو شادی ہوکر اپنے گھر سدھارجاتی ہیں لیکن لڑکے شادی کے بعد ایک ہی گھر میں ناممکن ناممکن۔۔کتنا بھی بڑا گھر ہو لیکن خواتین علیحدہ کرواکر ہی دم لیتی ہیں۔پھر جب گھر فروخت ہوتا ہے تو سب کے حصّے میں اتنی رقم آتی ہے ،کہ موٹر سائیکل خرید لیں گھر نہ بناسکتے ہیں اور نہ ہی خرید سکتے ہیں لہذا زیادہ تر کرائے پر چلے جاتے ہیں۔لیکن باپ زندہ ہو اور بیٹوں کی شادی ہوجائے تو اس گھر کا سب سےبڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے میاں کو کہاں رکّھا جائے جس نے ساری زندگی محنت کرکے یہ گھر بنایا اس کے لئے اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔صرف وہ باپ جو ہوشیار ہوتے ہیں یا ان تجربات سے گزر چکے ہوتے ہیں وہ جائیداد کے سارے کاغذات اپنے قبضے میں رکھتے ہیں ان کی آو¿ بھگت رہتی ہے۔بہرحال مرزا صاحب تو ان لوگوں میں سے تھے۔جو کاغذات بیٹے کے حوالے کرچکے تھے اور بیٹا پہلے ہی مکان اپنے نام کراچکا تھا۔اب مسئلہ یہ تھا کہ ابّا جی کو کہاں رکھّا جائے۔باہر کے دالان میں جو کہ ایک راہداری کی شکل میں تھا وہاں ایک تخت بچھارہتا تھا۔وہ تخت مرزا صاحب ہی نے بہت پہلے وہاں ڈلوایا تھا کہ دوست وغیرہ آتے تھے تو گرمیوں میں وہاں بیٹھ کر خوش گپّیاں ہوتی تھی لیکن کافی عرصے سے وہ جگہ استعمال میں نہیں تھی اور وہاں طوطے کا پنجرہ لٹکادیا گیا تھا۔بہو کی نظر اس نایاب اور قیمتی جگہ پر پڑی اور انہوں نے شوہر سے کہا میں نے ابّا جی کے سکون اور آرام کے لئے بہت اچھّی جگہ چنی ہے۔ شوہر نے کندھے اچکادیئے۔جیسا تم مناسب سمجھو۔لہذا ابّا جی کا بستر باہر کے دالان میں اس تخت پر آگیا۔مرزا امیر بیگ جن کی ایک آواز پر پورا محلّہ جاگ جاتا تھا آج کس قدر بے بس اور مجبور تھے۔سارا دن طوطے سے باتیں کرتے رہتے تھے۔اور پھر ایک دن مرزا صاحب پر فالج گرا فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا ایک ہاتھ اور ٹانگ پر اثر پڑا تھا ایک طرف کا منہ کا حصّہ بھی متاثّر ہوا تھا اب وہ صحیح طرح سے بول بھی نہیں سکتے تھے بڑی مشکل سے سمجھ میں آتا تھا کہ کیا کہہ رہے ہیں۔بہو کو یہ فکر لاحق تھی کہ اب ان کی دیکھ بھال کون کرے گا کئی مرتبہ شوہر کو متنبہ کرچکی تھیں کہ وہ یہ خدمت کرنے سے قاصر ہیں مرزا صاحب کے محلّے کے کچھ دوست ہی تھے جو باری باری مرزا صاحب کے لئے کچھ کرجاتے تھے۔کوئی مالش کرجاتا تھا کوئی ورزش کرادیتا تھا۔ لیکن کب تک آہستہ آہستہ وہ بھی غائب ہوگئے اب مرزا تھے اور ان کی تنہائیاں۔پھر مرزا صاحب نے بیٹے سے درخواست کی کہ سامنے کا پردہ ہٹادے تاکہ کچھ دھوپ بھی آئے اور وہ باہر دیکھیں تو کچھ دل بہلے بیٹے نے یہ احسان بھی کردیا۔کچھ دن کی مالش اور تھوڑی ورزش سے مرزا صاحب لکڑی کے سہارے چلنے کے قابل تو ہوگئے تھے ۔ایک ہاتھ جو فالج سے متاثّر ہوا تھا تھوڑا بہت حرکت کرنے لگا تھا۔ایک دن مرزا صاحب دالان میں بیٹھے باہر دیکھ رہے تھے کہ ایک پرانا دوست جاتا نظر آیا انہوں نے اسے آواز دے کر بلانے کی کوشش کی لیکن فالج کی وجہ سے منہ سے بے ہنگم آوازیں نکل رہی تھیں۔دوست نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر اس کی نظر مرزا صاحب پر پڑی وہ فورا” مرزا کے پاس پہونچا۔ارے مرزا یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے۔۔مرزا صاحب کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ارے ارے یہ کیا سب ٹھیک ہے۔۔دوست نے تسلّی دینے والے انداز میں کہا۔اچھّا میں ذرا ڈاکٹر کے پاس جارہا ہوں واپسی میں تمھارے پاس آو¿ں گا۔مرزا نے بے چینی سے گردن ہلائی اور اپنا ہاتھ پوری قوّت سے اٹھانے کی کوشش کی جو کہ ان کے دوست کے سر پر پڑا۔پہلے تو وہ دوست چکراگیا اور پھر حیرت سے مرزا کی طرف دیکھنے لگا اور اگلے ہی لمحے وہ مرزا کا ہاتھ چوم رہا تھا۔اور اس کے بعد وہ تیزی سے باہر چلاگیا۔شام ہوتے ہوتے پورے محلّے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مرزا امیر بیگ ولی ہوگئے ہیں۔ ارے،،وہ کیسے۔۔۔۔ وہ ایسے کہ ان کا پرانا دوست جو ان کے پاس بیٹھا تھا ۔بہت عرصے سے شدید سر کے درد میں مبتلا تھا۔اور بعض اوقات اس کا درد برداشت سے باہر ہوجاتا تھا۔اس وقت وہ ڈاکٹر کے پاس ہی جارہا تھا کہ اس کے سر پر مرزا کا ہاتھ پڑا اور سر کا درد یکدم غائب ہوگیا۔اسے یقین ہوگیا کہ مرزا اللہ والے ہوگئے ہیں اسی لئے انہوں نے اس کو اپنے پاس بلایا اور اپنے فالج زدہ ہاتھ سے ان کے سر کے درد کا علاج کردیا۔بس پھر کیا تھا عورتیں مرد سب اپنے مسائل لے کر آنا شروع ہوگئے مرزا ان کو اپنی بے ہنگم آواز میں سمجھانے کی کوشش کرتے کہ انہیں غلط فہمی ہوئی ہے مرزا کا لڑکا بھی لوگوں کو بھگارہا تھا۔لیکن لوگ کہاں باز آنے والے تھے مرزا کی بہو بہت چالاک تھی اس نے شوہر سے کہا ارے تم پاگل ہوگئے ہو ۔پھر اس نے شوہر کے کان میں کھسر پسر کی ارے بے وقوف ہماری تو لاٹری کھل گئی ہے۔ساری بات سمجھ کر شوہر کی آنکھیں بھی چمکنے لگیں۔فوری طور پر ایک آدمی کا انتظام کیا گیا جس نے مرزا کو نہلایا دھلایا۔باہر کے کمرے کو صاف کرکے چاندنی اور گاو¿ تکیہ بچھایا گیا۔اور حیران پریشان مرزا کو وہاں منتقل کردیا گیا۔پہلے تو مرزا نے بہت احتجاج کیا لیکن پھر یہ سوچ کر کے اس طرح انہیں کئی تکلیفوں سے نجات مل جائے گی حامی بھرلی اب مرزا صاحب پیر بن چکے تھے اور بہو بیٹی پیسوں میں کھیل رہے تھے۔ مرزا کو اچھّا کھانا اور آرام دونوں میسّر ہوچکے تھے۔آج ہمیں اپنے چاروں طرف ایسے جعلی پیر نظر آرہے ہیں جو کبھی اپنے حالات درست نہ کرسکے پیر بن کر دوسروں کے حالات درست کرنے کا دعوی’ کرتے ہیں اخبارات اور ٹی وی پر بڑے بڑے اشتہارات دیتے ہیں۔وہ تمام مسائل ان کی زندگی میں خود موجود ہیں جن کو حل کرنے کا دعوی’ کرتے ہیں۔میں ایک ایسے صاحب کو جانتا ہوں جو یہاں اپنا کاروبار درست کرنے کی کوشش کرتے رہے کئی ناکامیوں کے بعد انہوں نے یہ راستہ نکالا کہ پیر بن بیٹھے ہیں اخبار میں اشتہارات دے رہے ہیں اور دوسروں کے کاروبار میں ترقّی کا تعویز دے رہے ہیں جب کہ آج تک اپنا کاروبار نہ سنبھال سکے۔کوءبتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں