کسی سے بات کیجئے! 177

خودکشی کی طرف رجحان بھی ایک بیماری ہے

اس وقت میری فیس بک سیمیں درانی کی موت کی خبر سے بھری پڑی ہے میں انھیں بہت تھوڑا سا جانتی ہوں لیکن جب سے خبر پڑھی ہے انتہائی تکلیف میں ہوں اتنی خوبصورت، مہربان، اور بظاہر خوش رہنے والی خاتون کا یوں اچانک چلے جانا یقیناً کسی شدید تکلیف کی وجہ سے ہی ہوسکتا ہے سانس تک رکتی ہے سوچ کے کہ وہ کس تکلیف سے گزر رہی ہوں گی۔ ان کے دوبچوں کا سوچ کے دل کی حالت بیان سے باہر ہوجاتی ہے اتنےپیارے بچے جو انھیں بھی بہت پیارے تھے ہر ماں کی طرح۔۔
ہمارے سسٹم ، ہماری سوچ ، برتاو¿ ، ڈبل سٹینڈرڈ زندگی نے ہمیں اندر سے بالکل تنہا کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا اور عام زندگی میں دوستوں کے ہوتے ہوئے بھی ہر کوئی اتنا اکیلا ہے یا شاید کسی دوڑ میں پیچھے رہ رہا ہے یا کچھ ہے جو لاحاصل ہے۔ کوئی اذیت، جسمانی، ذہنی یا جذباتی تناو¿ ، گھریلو مسائل ، جسمانی بیماریاں یا ذہنی بیماریاں کہ ہر کوئی اپنی اپنی جگہ کسی نہ کسی محاذ پہ پوری قوت سے کھڑا ہے اور ٹوٹ رہا ہے۔ ابھی کل رات ہی میں سوچ رہی تھی کہ بہت سے لوگ کتنی آسان اور آسودگی بھری زندگی جی رہے ہوتے ہیں اور کچھ ہیں جو بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی ہر وقت کسی نہ کسی اندرونی یا بیرونی تکلیف سے نمٹ رہے ہیں۔ کچھ لوگ تو ہر بات یا کچھ باتیں شئیر کرلیتے ہیں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو دنیا کی تکلیف میں اپنی تکلیف ڈال کے دوسروں کیلئے پریشانی میں اضافہ نہیں کر پاتے
یا جنھیں کسی پہ بھی یقین نہیں۔ جنھیں کہیں سے خلوص نہیں ملا کوئی سچا سننے والا نہیں ملا، کوئی ہمدرد ، کوئی دوست ، کوئی غمگسار نہیں ملا وہ بظاہر مضبوط نظر آتے ہوئے بھی اندر کی توڑ پھوڑ سے اس قدر کمزور اور کھوکھلے ہوتے جاتے ہیں کہ زندگی ان کیلئے صریح بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں رہتی۔۔
اپنی جان لینے والے اس نہج تک کیسے پہنچتے ہوں گے۔ وہ نہ تو بزدل ہوتے ہیں نہ بہادر، نہ ہی کوئی اور پیمانہ ہے اس وجہ کو جاننے کا۔ ان کی ذہنی حالت انھیں اس حد تک پہنچادیتی ہے کہ وہ خود کو کنٹرول ہی نہیں کر پاتے۔ ہمارے اردگرد بہت سے لوگ ایسی جسمانی یا ذہنی بیماریوں اور کشمکش سے گزررہے ہیں۔ ان سے بات کیجئے انھیں اپنے ہونے کا احساس اور یقین دیجئے ان کے ساتھ رہئے مشکل ہے اور بعض اوقات ناممکن بھی ہوجاتا ہے مگر کسی کی جان جانے سے تو بہرحال بہتر اور آسان ہی ہوگا۔۔۔
اگر کوئی ذہنی یا جذباتی تناو¿ کا شکار ہے تو انھیں سائیکاٹرسٹ سے ملنا یا کم ازکم اپنے ڈاکٹر سے ضرور بات کرنی چاہئے ہمارے پاکستانی معاشرے میں آج بھی ایسے لوگوں کو عجیب ناموں سے پکارتے ہیں مگر یہ سچ ہے کہ اس وقت ہر دوسرا شخص ایسے مسائل سے گزر رہا ہے انھیں judge نہ کیجئے صرف سمجھئے اور ان کی مدد کیجئے ایسے لوگ اکثر مدد بھی نہیں لیتے نہ ہی مانتے ہیں کہ یہ بھی کوئی دوا طلب مسئلہ ہے۔ سائیکالوجسٹس سائیکاٹرٹس کو ڈاکٹر کیوں کہا جاتا ہے اسی لئے کہ جذبات، احساسات اور ذہنی مسائل اور بیماریوں کا علاج انہی لوگوں کے پاس ہے نہ کہ پیروں ، فقیروں کے پاس۔ اگر آپ کی زندگی میں شریک انسان آپ کے ان مسائل کو سمجھتا ہے اور آپ کی مدد کرنا چاہتا ہے تو اس سے مدد لیجئے۔ شریک حیات سے بہتر کون آپ کے ساتھ ان مسائل میں تعاون کرسکتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض اوقات ساتھ رہنے والا انسان بھی نہیں سمجھ پاتا، نہ ہینڈل کر پاتا ہے۔ ایسے میں کاو¿نسلنگ اور ٹریٹمنٹ بہت ضروری ہے۔ کوئی بھی صحتمند اور خوش باش انسان اپنے پورے ہوش و حواس میں اپنی جان نہیں لے سکتا۔
لکھنے والوں میں یہ رجحان بکثرت پایا جارہا ہے۔ آئے دن کوئی شاعر ، ادیب اپنی جان لے لیتا ہے۔ ایسے کوئی بھی شاعر، ادیب اگر آپ کے دوست ہیں اور ایسے سٹیٹس ڈالتے ہیں ان سے بات کیجئے ایک اچھے دوست کی حیثیت سے۔ ان کی بات سنئے اور ڈاکٹر سے بات کرنے ، سائیکلوجیکل ٹریٹمنٹ اور کاو¿نسلنگ کا بارے میں ضرور آگاہی دیجئے جو چلے گئے ان کو judge کہ کچھ اور کو بچایا جاسکے کاش کوئی جانے سے پہلے اک بار بتادے کہ اسے کوئی آکے بچالے تو یہ نقصان نہ ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں