کفر و اسلام کی وہ جنگیں جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہوئیں۔ صلیبی جنگیں کہلائیں اور ان صلیبی جنگوں کا عرصہ دو سو سال پر محیط ہے۔ مذہبی اختلافات کے علاوہ ان جنگوں کی وجوہات میں معاشی اور اقتصادی محرومیاں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں اور یہ محرومیاں مسلمانوں میں نہیں بلکہ یورپ کے عیسائیوں میں پائی جاتی تھیں کیوں کہ وہ لوگ معاشی بدحالی اور جہالت کا شکار ہے اور ان کے مقابلے میں مسلمان تعلیم یافتہ اور خوشحال کہلاتے تھے۔ یہ دور مسلمانوں کے عروج کا دور تھا جنہوں نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھاما ہوا تھا۔ مسلمانوں کی فتوحات بھی کافی طوالت اختیار کرتی جارہی تھیں اور مسلمان ناقابل تسخیر قوت بن چکے تھے۔ افریقہ، ایشیا، روم، اسپین، پرتگال غرض کہ آدھا یورپ مسلمانوں کے قبضے میں آچکے تھے۔ اس صورت حال نے عیسائیوں کو بے حد پریشان کیا اور انہیں مسلمانوں کے مقابلے میں متحد ہونا پڑا، دو سو سال کی اس مذہبی جنگ کو مختصر سے مضمون میں سمیٹنا ایک مشکل امر ہے۔
اگر ہم اس دور کا موازنہ آج کے دور سے کریں تو کافی چیزیں مشترک لیکن قوموں میں الٹ نظر آئیں گی۔ یعنی آج کے مسلمانوں نے اس وقت کے عیسائیوں کی جگہ لی ہوئی ہے جب کہ عیسائی ہر میدان میں مسلمانوں سے آگے نظر آتے ہیں جب کہ مسلمان بکھرے تو آج تک بکھرے ہوئے ہیں۔ آج اسلامی ممالک اپنی حفاظت کے لئے عیسائیوں اور یہودیوں کے خوشامدی بنے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں میں خلافت اور حکومت کے معاملات نے انتشار پیدا کیا اور آج تک منتشر ہیں۔ اگر اہم اس پرانے دور پر نظر ڈالیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ مسلمان آدھی دنیا پر قابض ہو چکے تھے۔ سب سے زیادہ مالدار، خوشحال اور ترقی یافتہ تھے۔ آج آدھی سے زیادہ دنیا عیسائیوں کے زیر نگوں ہے۔ کایا پلٹ گئی، آج عیسائی دنیا کی مالدار ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ قوم ہے۔ اس زمانے میں یوروپ میں جاگیردارانہ نظام تھا۔ کسان، ہاری، جاگیرداروں کے رحم و کرم پر تھے۔ مالدار عیش کررہے تھے اور عام لوگ بنیادی ضروریات تک سے محروم تھے جو کہ آج کل مسلمانوں میں ہو رہا ہے۔ جس زمانے میں مسلمانوں کا عروج تھا۔ حکومت کی لالچ میں انتشار پیدا ہوا۔ عباسی، فاطمی، سلجوقی اور اسپین کے حکمران اپنی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے لگے اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لئے دست و گریبان ہو گئے۔ یہ صورت حال عیسائیوں کے لئے بڑی خوش آئند تھی لہذا انہوں نے مسلمانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر بیت المقدس پر قبضے کی ٹھانی جو کہ حضرت عمرؓ کے زمانے سے ہی مسلمانوں کے قبضے میں تھا۔ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اوّل تھا اور مذہبی لحاظ سے امت مسلمہ کے لئے نہایت ہی اہم تھا۔ یہاں بزرگان دین کے مزارات بھی تھے اور عیسائیوں کے لئے بھی حضرت عیسیٰؑ کی جائے پیدائش کی وجہ سے مقدس مقام تھا۔ مسلمانوں نے اپنے دور حکومت میں عیسائیوں کے مذہبی جذبات کا بہت خیال رکھا۔ زائرین کے لئے ہر طرح کی سہولیات مہیا تھیں جب مسلمانوں میں انتشار کی خبریں عیسائی مذہبی رہنماﺅں تک پہونچیں تو انہوں نے موقعہ غنیمت جان کر عیسائیوں کو بھڑکانا شروع کردیا کہ بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہے اور ہمیں اس کو مسلمانوں سے آزاد کرانا چاہئے۔ خاص طور پر روم کے پوپ اربن ثانی نے اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہ اس نادر موقعہ کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا تھا لہذا اس نے پورا زور لگا دیا اور عیسائیوں میں جہاد کا اعلان کیا اور کہا کہ اس جہاد میں جو بھی مارا جائے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ پوپ اربن کو بھڑکانے اور اس کا ساتھ دینے میں فرانس کے راہب پیٹر کا بھی بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اس عیسائیوں کو بیت المقدس کی طرف روانگی اور اس پر حملہ کرکے آزاد کرانے کے لئے بہت بڑی تحریک چلائی اور عیسائیوں کو اکھٹا کرنے کے لئے دن رات ایک کردیئے۔ یہاں سے صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جس میں فلسطین پر قبضے کے لئے انگلینڈ، فرانس، جرمنی، انٹلی سب شامل ہو گئے آج یہی سب نیٹو کی صورت میں نظر آرہا ہے۔ پوپ اربن نے تیرہ لاکھ عیسائیوں کو جمع ک رکے راہب پیٹر کی قیادت میں فلسطین کی طرف روانہ کیا ان لوگوں نے راستے میں آنے والے اپنے ہی ہم مذہب عیسائیوں کو لوٹا اور قتل و عام کیا اور اسے صلیبی جنگ کے لئے جائز قرار دیا جس طرح آج اسلامی تنظیمیں دہشت گردی میں اپنے ہی لوگوں کو قتل کرکے اسے جہاد کے لئے جائز قرار دیتے ہیں۔ یہ لشکر لوٹ مار کرتا ہوا اور اپنے ہی عیسائیوں کو قتل کرتا ہوا اسلامی علاقے میں داخل ہوا۔ سلجوقی حکمران آلپ ارسلان نے اسے آڑے ہاتھوں لیا اور پورے لشکر کو نیست و نابود کردیا پھر دوسرا لشکر جرمن راہب کی سربراہی میں روانہ ہوا۔ انہوں نے بھی راستے میں اپنے ہی لوگوں کا قتل و عام کیا اور لوٹ مار کی کہ راستے کے لئے مال و زر کی ضرورت تھی لیکن یہ لشکر ہنگری سے آگے نہ بڑھ سکا وہاں کے عسائی ان کے ظلم کی داستان سن چکے تھے لہذا انہوں نے ان کو گھیر کر ختم کردیا۔ عیسائیوں نے 37 ہزار کم عمر لوگوں کا بھی لشکر تیار کرکے فلسطین بھیجا تھا لیکن یہ سب راستے میں ہی مر کھپ گئے۔ آج کل خودکش حملوں کے لئے کم سن لوگوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد عیسائی دوبارہ صحیح طریقے سے منظم ہوئے اس مرتبہ انہوں نے جرائم پیشہ اور جنگجو لوگوں کو جمع کیا اور انہیں مال و زر بھی دیا اور مزید مال غنیمت کا بھی لالچ دیا اور ایک بہت بڑا لشکر تیار کرکے 1097ءمیں فلسطین کی طرف روانہ کیا۔ مسلمانوں کا جوش و جذبہ حکومت کی لالچ میں رسہ کشی کی وجہ سے دم تور چکا تھا لہذا مزاحمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ عیسائیوں نے بیت المقدس پر قابض ہو کر مسلمانوں پر وہ ظلم و ستم کئے جو بیان سے باہر ہیں۔ عورتوں، بچوں، بوڑھوں کسی کو بھی نا بخشا جن کو اپنے ہی ہم مذہب سے ہمدردی نہیں تھی اور راستے میں لوٹ مار قتل غارت گری کرتے ہوئے آئے تھے وہ مسلمانوں سے کیا ہمدردی کرتے۔ مسلمان آپس میں انتشار کی وجہ سے یہ جنگ ہار گئے۔ دوسرے مسلمان حکمرانوں نے بھی کوئی مدد نا کی اور آج بھی یہی ہو رہا ہے کسی ایک مسلمان ملک پر حلہ ہوتا ہے، باقی سب تماشہ دیکھتے ہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف مدد بھی کرتے ہیں۔ اس کے بعد بیت المقدس پر 91 سال غیر مسلموں کا قبضہ رہا۔ اس کے بعد صلاح الدین ایوبی اور عماد الدین زنگی ان کی موت بن کر ابھرا۔ تاریخ شاہد ہے کہ عیسائیوں کو اتنی عبرت ناک شکست کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ صلاح الدین ایوبی نے بے شمار فتوحات حاصل کیں پھر ایک موقعہ ایسا آیا کہ صلاح الدین ایوبی کو بھی شکست اس وجہ سے ہوئی کہ مسلمان حکمران نے اسے دھوکہ دے دیا اور مسلمان حکمران نے دھوکہ اس طرح دیا کہ وقت پر کمک نا پہونچائی جس کا وعدہ کیا تھا۔ بیت المقدس پر مسلمانوں کا آٹھ سو سال تک قبضہ رہا لیکن ایک دوسرے کی مدد نا کرنے کی وجہ سے اور آپس میں اتحاد نا ہونے کی وجہ سے 1948ءمیں عیسائیوں اور یہودیوں کی سازش اور کچھ مسلمانوں کی مدد سے اسرائیل کا قیام عمل میں آیا اور 1967ءکی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ اس کے بعد اسے آزاد کرانے کے لئے صرف نعرہ رہ گئے ہیں کیوں کہ مسلمانوں میں اتحاد نہیں ہے اور مسلمان حکمرانوں کو بیت المقدس سے کوئی دلچسپی نہیں رہی لہذا نعرے لگاتے رہو اور ایمان تازہ کرتے رہو کشمیر اور بیت المقدس کی رہائی کے نئے نئے نعرے نئے نئے نغمے نئی نسل کے لئے تیار کرتے رہو۔
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کہ شرمائے مسلمان
540