تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 698

دَلدل

تقسیم کے بعد قائد اعظم نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات کی نوعیت ایسی ہو جیسی کہ امریکہ اور کینیڈا کے تعلقات ہیں۔ آزادی کی تحریک کے موقع پر ہندوستان میں قائد اعظم مسلمانوں کے نمائندے تھے تو ہندوﺅں کی نمائندگی مہاتما گاندھی کے سپرد تھی جو کہ ہندو مسلم اتحاد کے لئے آخر تک کوششیں کرتے رہے۔ دوسری طرف قائد اعظم تھے جنہیں ایک زمانے میں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا جاتا تھا مگر وہ قوتیں جو ہندو مسلم اتحاد کی مخالف تھیں وہ وقت کے ساتھ ساتھ طاقتور ہوتی چلی گئیں جس کے نتیجے میں قائد اعظم نے ہندو مسلم اتحاد سے لاتعلقی اختیار کرکے ایک علیحدہ خطہ زمین کا مطالبہ کردیا حالانکہ یہ ہندو اور مسلم صدیوں سے ساتھ ساتھ رہ کر خوشگوار زندگیاں بسر کرتے رہے تھے۔ انگریز کی پالیسیوں نے جو تقسیم در تقسیم کا طریقہ کار بنایا تھا وہ صدیوں کے ان رشتوں کو ختم کرنے کا موثر ہتھیار ثابت ہوا۔ اس ہتھیار نے نہ صرف انگریزوں کے اقتدار کو طویل سے طویل کیا بلکہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد بھی یہ ہتھیار اتنا موثر رہا کہ آزادی حاصل کرنے کے تقریباً ستر سال کے بعد بھی دونوں طبقوں میں حالت جنگ کی سی کیفیت طاری ہے۔ جس کے اثرات یہ ہوئے کہ برصغیر جو کہ ایک زمانے میں دنیا کا آسودہ علاقہ تصور ہوتا تھا وہ اب دنیا کے غریب ترین علاقوں میں شامل ہے۔ جب بھی کوئی حکمراں ایسا آیا جو کہ ان دو ملکوں کے حالات کو بہتر کرنا چاہتا ہو اس کی کوششوں کو دوسری طرف کے حکمرانوں کی طرف ناکام بنا دیا جاتا۔ کبھی ایک طرف کا حکمران کشیدگی کا باعث ہوتا، کبھی دوسری طرف کا حکمران، یوں ستر سال میں دونوں ملکوں کی تین نسلیں خوشحالی کے خواب دیکھ کر رُخصت ہو گئیں مگر کشیدگی ہر دو جانب جاری رہی۔ ان ستر سالوں میں وہ قومیں جو غربت کی زندگیاں گزار رہی تھیں وہ آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہونے لگیں مگر ہندوستان اور پاکستان اس خوشحالی اور ترقی کے لئے ترستے رہے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ان ملکوں کے عوام کو آپس میں لڑوا کر کن قوتوں کو فائدے حاصل ہو رہے ہیں یہ قوتیں ان دونوں ملکوں کے اندر بھی پائی جاتی ہیں اور باہر بھی۔ ان قوتوں کو بے نقاب کرنے کے لئے ان عوامل کا جائزہ لیا جانا چاہئے کہ جب بھی کسی ایک طرف کے حکمران نے ان تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی تو دوسری طرف کے حکمران کی جانب سے اس میں رکاوٹ ڈالی گئی جب کبھی دونوں طرف کے حکمرانوں نے ان تعلقات کو مل کر بہتر بنانا چاہتا تو کسی ان دیکھی قوت نے ان تعلقات کو خراب سے خراب کرنے میں کامیاب ہوئی۔ یہ قوتیں بھارت کے اندر بھی ہیں اور پاکستان کے اندر بھی، اور ان دونوں ملکوں کے باہر بھی۔
پچھلے دنوں کشمیر کے مقام اڑی میں تقریباً اٹھارہ ہندوستانی فوجیوں کو ہلاک کرنے والی وہی قوت ہے جس نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ لاہور کے فوراً بعد پٹھان کوٹ کا واقعہ پیش کیا یہ ہی مودی جو گجرات کے فسادات کے موقع پر ہونے والی قتل و غارت گری کے ذمہ دار سمجھے جاتے تھے شاید وہ ان قوتوں کے اعلیٰ کار تھے مگر انہوں نے ان قوتوں کے برخلاف جب پاکستان سے دوستی کی کوششیں کیں تو ان قوتوں نے ان کو بھی ناکام بنا دیا۔ یہ وہ قوتیں تھیں جن کا پاکستان اور بھارت سے کوئی تعلق نہیں تھا حالانکہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مودی کا دوست سمجھا جاتا ہے۔ اس ہی طرح پرویز مشرف پر جب باجپائی اور نوازشریف کے درمیان تعلقات کو بہتر کرنے کی کوششیں کیں تو پرویز مشرف پر کارگل کا محاذ کھولنے کا الزام لگایا گیا جب یہ ہی پرویز مشرف آگرہ میں ایک ایسے معاہدے کے قریب تھے جس میں دونوں ملکوں کے عوام سکھ چین سے جینے کی آرزو کرنے لگے تو مگر اس معاہدے کو بھی آخری وقت میں ناکام بنا دیا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ دونوں ملکوں کی فوجیں سرحدوں کے دونوں جانب سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آمنے سامنے تن کر کھڑی تھیں اس موقع پر پرویز مشرف کے مشہور مصافحہ نے حالات کو یکسر تبدیل کردیا۔ حالات کو پرویز مشرف اور باجپائی نے مل کر ایک ایسے معاہدے کی جانب منتقل کردیا جس میں کشمیر جیسے قدیم تنازع کا ایک ایسا حل پیش کردیا جس سے دونوں ملکوں کے ساتھ ساتھ کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا مگر اس دوران وجاپائی کی بی جے پی کو انتخابات میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور کانگریس نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اس طرح ڈاکٹر من موہن سنگھ نے بھارت کے وزیر اعظم کی حیثیت سے ایک ایسے حل کی طرف پیش رفت شروع کردی جس میں پرویز مشرف نے بھی اس امن معاہدے کی طرف پیش قدمی جاری رکھی۔ اس موقع پر دونوں ملک ایک معاہدے کی جانب کامیابی سے آگے بڑھتے گئے تو وہ قوتیں اب پاکستان میں ایسے حالات پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئیں کہ پرویز مشرف کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔
پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں 2008ءمیں ممبئی حملہ ہو گیا اس زمانے سے ہی پاکستان اور ہندوستان کی کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس طرح دونوں طرف کے عوام ایک دوسرے کو الزامات دیتے رہے۔ مگر ان قوتوں کو کوئی بھی بے نقاب نہ کرسکا۔ جنہوں نے دونوں ملکوں کے عوام کو آپس میں لڑا کر غربت کے جال میں پھنسایا ہوا تھا۔ دونوں ملکوں کے عوام اور خاص طور پر ان کا میڈیا ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے دعویٰ کرنے لگے۔ کسی کو بھی برصغیر کے دو ارب انسانوں پر ترس نہیں آیا۔ جب کے گاندھی جیسی مہاتما اور قائد اعظم جیسے رہنما ان حالات کو بہتر بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو آنے والے حکمراں جو کہ کسی بھی طرح گاندھی جی اور قائد اعظم سے بہتر نہیں تھے ان کے ہاتھ بھی ان قوتوں کو بے نقاب کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ جنہوں نے صدیوں کے تعلقات کو اس قدر خراب کردیا کہ دونوں ملکوں نے آزادی حاصل کرنے کے باوجود ایک دوسرے کو وجود کو بھی گوارا کرنا مناسب نہ سمجھا جب کہ موجودہ دور میں کسی بھی طرف کے فریق کے لئے یہ کشیدگی بہتر نہیں۔
کوئی ملک کسی دوسرے ملک کو ختم نہیں کر سکتا، نہ ہی دوسرے ملک کے عوام کو تباہ و برباد کرسکتا ہے۔ اب دونوں طرف کے عوام اور ساتھ ساتھ حمرانوں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ گزشتہ ستر سالوں میں دونوں طرف سے ایسے طریقہ اختیار کئے گئے جو دوسرے ملک کو تباہ کرسکتے تھے مگر دونوں ملک قائم و دائم ہیں اس لئے اب دونوں ملکوں کے حکمرانوں کو بات چیت کے ذریعہ ان مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ نہیں تو آئندہ ستر سال بھی اس ہی طرح کے جنگ و جدل کے حالات رہ کر اپنے اپنے عوام کو غربت کی چکی پسواتے رہیں جب کہ دنیا کے دوسرے علاقوں کے لوگ بہتر سے بہتر زندگیاں بسر کرتے رہیں۔ اب ہمیں آپس میں ہی ایک دوسرے کے لئے ایسے مواقع پیدا کرنے ہوں گے جہاں وہ غربت کی دلدل سے نکل سکیں، نہیں تو دن بدن وہ اس دلدل میں پھنستے چلے جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں