پاکستان میں ایک بار پھر سانحات کو سیاسی ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ جب بھی کبھی سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کے پاس حکومت وقت کو پریشان کرنے اور عوام کو مزید بے وقوف بناتے ہوئے ان کے جذبات کا سہارہ لے کر حکومت وقت کو بلیک میل کرنے کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ جس طرح سے ان دنوں ساہیوال میں ہونے والے افسوسناک واقعہ کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ کس طرح سے میڈیا نے اس واقعہ کا پوسٹ مارٹم کرنا شروع کردیا ہے کس طرح سے فیصلہ کن رپورٹنگ کرکے فیصلے اور نتیجے تک اخذ کئے جارہے ہیں۔ یہ ہی حال نیب زدہ سیاستدانوں کا ہے جن کے پاس اپنی کرپشن کا تو کوئی جواب نہیں البتہ وہ اس طرح کے سانحات کی مہربانی سے حکومت کے سامنے سوال بننے کی کوشش ضرور کررہے ہیں۔ سیاستدانوں کا متاثرہ خاندان سے ان کے گھر جانا اور اس کے بعد وہاں میڈیا سے خطاب کرنا ن کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔ میں بھی ساہیوال جیسے سانحہ کا بدترین مخالف ہوں۔ میری بھی یہ خواہش ہے کہ جو درندے اور وحشی اس اندوہناک سانحہ میں ملوث ہیں ان کے خلاف قانون اور انصاف کے تحت کارروائی کی جائے اور انہیں اس طرح سے نشان عبرت بنایا جائے کہ آئندہ کسی کو اس طرح کی واردات کرنے کی جرات اور ہمت نہ ہو۔ میں تو مخالف صرف اس طرح کے سانحات پر سیاست کرنے کا ہوں اس لئے کے سانحات پر سیاست کرنے سے متاثرین کے بجائے مجرموں کو ہی اس کا فائدہ پہنچتا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن لاہور کی مثال ہمارے سامنے ہے اس سانحہ پر بھی مخالف سیاسی جماعتوں نے سیاست اور خوب ہلڑ بازی کی تھی لیکن کیا ہوا۔۔۔؟ کوئی ایک بھی ملزم پکڑا گیا یا کسی کو سزا ہوئی۔۔۔؟ نہیں، اس لئے تو میں کہتا ہوں کہ خدارا اس طرح کے سانحات پر سیاست کرکے حکومت کو بلیک میل نہ کریں بلکہ انہیں کام کرنے دیں بلکہ ہو سکے تو ان کے کاموں میں ان کی مدد کریں۔ لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے اس لئے کہ انہیں تو حکومت کو بلیک میل کرنے کے لئے کوئی بہانہ، کوئی جواز چاہئے، یہ ہی حال ہماری میڈیا کا ہے جو اپنا بخار اس طرح کے سانحات کو اپنے پسندیدہ اینگل دے کر حکومت وقت کو دن میں تارے دکھانے کی صورت میں اتار رہا ہے۔ تانکہ حکومت کسی رح سے انہیں ماضی کی حکومتوں کی طرح سے اشتہارات سے مالا مال کردے۔ ان ہی اخبارات میں ہم سب اجتماعی زیادتی کی خبریں بار بار پڑھ چکے ہیں، بالکل اسی طرح سے اب اخبارات اور ٹی وی چینلز نے اجتماعی طور پر بلیک میلنگ کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ ایجنڈا صحافت پوری طرح سے منظرعام پر آچکا ہے۔ اخبارات اور چینلز میں کام کرنے والے تمام صحافی ملز اور فیکٹری ملازمین کی طرح سے مالکان کے اشارے پر چل رہے ہیں اور تو اور اب تو صحافی تنظیموں کو بھی کسی حد تک اخبارات اور چینلز کے مالکان اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ اس میڈیائی یلغار کی وجہ سے حکومت دھیرے دھیرے مشکل میں پھنستی جارہی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ فی الحال وہ مخالفین کی تعداد میں کمی کرنے کی پالیسی کو اختیار کرتے ہوئے ہڈی پھیکنے کا سلسلہ شروع کردے تانکہ بلاوجہ بھونکنے کا ڈرامہ ختم ہو اس لئے کہ میڈیا کی اس بے چینی اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے غیر ملکی قوتیں بھی علاقائی جماعتوں کو سرگرم کرنے کی شکل میں میدان میں کود گئی ہیں۔ جس کا ایک مظاہرہ کراچی میں پختونوں کے ایک خود ساختہ تنظیم کے ذریعے کروایا جا چکا ہے۔ جس میں ملک دشمن قوتوں نے فوج کے خلاف محب وطن پختونوں کو لڑوانے کی سازش کی ہے۔ اور اس فوج دشمن شو کو میڈیا کے ذریعے کوریج کروانے کی بھی چال چلی گئی اس لئے عمران خان اور ان کی حکومت کو چاہئے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور جتنی جلد ہی ہو سکے وہ میڈیا سے اپنے تعلقات کو بہتر بنوائیں۔ چاہے اس کے لئے انہیں اپنا وزیر اطلاعات ہی کیوں نہ تبدیل کرنا پڑے وہ جلد از جلد اس معرکے کو سر کرکے خودساختہ انارکی کی صورتحال پر قابو پائیں اس کے ساتھ ساتھ سناحہ ساہیوال میں ملوث تمام ذمہ داروں کو جلد از جلد بے نقاب کریں اور ان کے خلاف فوری سماعت کی عدالتوں سے کارروائی کرواکے انہیں نشان عبرت بنائیں جب کہ میڈیا اور سیاستدانوں کو اس طرح کی بیان بازیوں اور شوشے چھوڑنے سے گریز کرنا چاہئے جس میں ریاست مدینہ کا تقدس مجروح ہو۔ صحافیوں کو ریاست مدینہ کو اپنا تکیہ کلام نہیں بنانا چاہئے کہ ہر واقعہ اور سانحہ کو اس کی نظر سے دیکھ کر ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کرنے والے پر لعن طعن کی جائے۔ ویسے بھی اسلام میں طعنہ زنی کو گناہ قرار دیا ہے اگر پاکستان میں پہلی بار کسی سربراہ مملکت نے ریاست کو مدینہ کے طرز پر چلانے کے عزم کا اظہار کیا ہے تو ہمیں اس کی تعریف کرنی چاہئے اور اس کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ اس کے لئے دعاگو ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ ہر حکومتی ناکامی یا نا اہلی کو مدینہ کی ریاست کی کسوٹی پر پرکھ کر تنقید کا سلسلہ شروع کردیا جائے۔ ہمیں ریاست مدینہ کا خواب دیکھنے پر کسی کو بدظن نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی سانحات کی سیاست کرنی چاہئے۔ اس طرح کی سیاست سے سانحات اپنے منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔
610