تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 572

صرف امن کا راستہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو اکثر صبح اٹھ کر پاکستان کے لئے ملامت زدہ ٹوئیٹ کرنے میں مصروف رہتے تھے، جن کی انتخابی مہم میں بھی پاکستان کے دماغ ٹھکانے لگانے کے دعویٰ کئے جاتے تھے، جو ہمیشہ سے امریکی مفادات، بھارت سے وابسطہ کرنے کی یقین دہانیاں کرواتے نہیں تھکتے تھے، بھارت جو امریکہ اور ڈونلڈ ٹرمپ کی آنکھ کا تارا بنا رہا ہے وہ اس وقت پوری دنیا میں دہائیاں دے رہا ہے کہ پاکستان سے آنے والے گروہ اس کے ملک میں دہشت گردی کرتے رہے ہیں جیسا کہ کشمیر کے مقام پلواما میں اس کے تقریباً چوالیس جوان موت کے شکار ہوئے جس کی وجہ سے ہندوستان بھر کا میڈیا ایک طوفان کھڑا کئے ہوئے ہے اس موقع پر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ امریکہ اپنا تمام زور بھارت کے پلڑے میں ڈال کر پاکستان سے اپنا حساب کتاب ضرور لے گا مگر ہوا اس کے برعکس۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے موجودہ حالات میں بھارت کا کھل کر ساتھ دینے کے بجائے اپنے پالیسی بیان میں پاکستان کو بھارت کے ساتھ لا کر کھڑا کردیا، بلکہ پاکستان کے نقطہ نظر کے حوالے سے اس کے مواقف بیان جاری کرکے ایک طریقہ سے بھارت کی حوصلہ شکنی کردی ہے۔ اس ہ ی طرح پاکستان کا نام FATF سے نکالنے کا فیصلہ کچھ مہینوں کے بعد کی نشست پر چھوڑ دیا۔ خطہ میں ہونے والی تبدیلیوں کا پاکستان میں بھی ادراک کیا جان چاہئے کیونکہ اب پاکستان کی اہمیت یکایک بے پناہ بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ امریکی صدر نے افغانسان سے اپنی فوجوں کی واپسی کا اشارہ کرکے اور افغان طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے وہ بہترین مواقع پاکستان کو فراہم کر دیئے ہیں کہ ان کو مدنظر رکھ کر پاکستان کو بھی اپنی سابقہ پالیسیوں کو بنیادی طور پر تبدیل کرنا ہوگا جس کا نقصان پاکستان نے تقریباً 70 ہزار افراد کی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھا کر اٹھایا اس کے علاوہ معیشت کو بھی بے پناہ نقصان پہنچا۔ اب موقع آگیا ہے کہ پاکستان کو اپنے اندر سے ان شدت پسند گروپوں کو صاف کرنا ہوگا۔ جن کی وجہ سے خطہ کا امن خطرے میں پڑ گیا ہے۔ مولانا اظہر مسعود ہوں یا حافظ سعید ان سب کو باور کروادیا جائے کہ اب وہ ریاست کی پالیسیوں کے ساتھ رہ کر ہی اپنی عافیت سمجھیں کیونکہ ان شدت پسند تنظیموں کی وجہ سے برصغیر کا امن خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ان چند مخصوص عناصر کی وجہ سے برصغیر کے عوام کی سلامتی کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستانی فوج نے ان سے بڑے گروپوں کے خلاف فاٹا کے علاقے میں بے پناہ کامیابیاں حاصل کرکے دنیا بھر کو یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ وہ اس قابل ہو گئی ہے کہ خطے کی سب سے بڑی شدت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ دے۔ ملک کے اندر یہ پیغام پہنچایا کہ اب اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں جو کہ ازخود فیصلے کرکے برصغیر کا امن تباہ کرسکے۔ ان چند مخصوص گروہوں کی وجہ سے برصغیر کے لوگوں کی سلامتی کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ بھارت کو اب کسی ایسی تنظیم کی مداخلت کا جواز فراہم نہیں کرنے کا موقع دینا چاہئے جس کا واویلا مچا کر وہ دنیا بھر کی ہمدردیاں سمیٹے۔ اور کشمیر کی خودمختاری کی تحریکوں کو نقصان پہنچا کر یہ ثابت کرسکے کہ ان کو پاکستانی تنظیموں کی معاونت حاصل ہے۔
اب کیونکہ کشمیری نوجوانوں کی تحریکوں کی وجہ سے وہاں کی آزادی منزلیں قریب نظر آرہی ہیں، بھارت کو کوئی ایسا جواز فراہم کرنے کا موقع نہیں دینا چاہئے جو کہ کشمیر کی تحریک آزادی کو نقصان پہنچا سکے۔ اس کے لئے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں جو فیصلے ہوئے ہیں ان پر من و عن عمل پیرا ہو کر ان تمام شدت پسند تنظیموں کے خلاف کریک ڈاﺅن کرکے دنیا بھر کو یہ پیغام دیا جائے کہ پاک فوج نے جس طرح شمالی علاقوں میں کامیاب آپریشن کرکے وہاں شدت پسندوں کا صفایا کیا ہے اور جس کی دنیا بھر میں پاک فوج کے کارناموں کو سرہایا جارہا ہے اس ہی طرح اندرون ملک بھی شدت پسند تنظیموں کا صفایا کرکے ملک بھر سے ایسی قوتوں کو نشانہ بنایا جائے جو ملک کے اداروں کو للکارتے رہے اور اپنے اپنے ایجنڈوں کو آگے بڑھانے میں مصروف عمل رہے اور ملکی سلامتی کے ساتھ خطے کی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈالتے رہے جس کی وجہ سے ہماری پچھلی دو نسلوں کو بے پناہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اب اس موقع پر ریاست کے تمام اداروں کو باہم مل کر ان عناصر کے خلاف بھرپور کارروائیاں کرکے ان سب کو اپنے تابع کریں۔
نیشنل ایکشن پلان جو کہ سانحہ پشاور کے بعد فوج اور ملک کی تمام اہم جماعتوں کے اتفاق رائے سے بنایا گیا تھا اس پر اب عمل پیرا ہوکر ان تمام قوتوں کے خلاف بھرپور کریک ڈاﺅن کرکے ان پابندیوں پر عمل درآمد کیا جائے تاکہ یہ تنظمیں اپنی کارروائیوں کو ختم کرکے ملکی قوانین کے مطابق ہتھیار ڈال دیں۔ اس سے دنیا بھر کو یہ پیغام پہنچ جائے گا کہ اب پاکستان میں مثبت تبدیلیوں کے بعد عالمی قوانین کے مطابق اپنی سرزمین کو دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی پابندیوں پر عمل پیرا ہے اس طرح بھارت کے اس پروپیگنڈے کا موثر جواب دیا جا سکے گا جس کا سہارا لے کر وہ پاکستان کے اداروں پر الزامات لگاتا رہا ہے کہ پاکستان کے ادارے ان تنظیموں کی پشت پناہی کرکے بھارت کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں جس کا پلواما حملے کے موقع کا فائدہ اٹھا کر بھارت نے پاکستان کے خلاف طوفان اٹھا دیا۔ لیکن پاکستان کے ٹریک ریکارڈ نے جیسا کہ اس نے شمالی علاقوں میں شرپسندوں کا صفایا کرکے دنیا بھر کو مثبت پیغام پہنچایا کہ وہ شرپسندوں کو اپنی زمین پر مزید برداشت نہیں کرے گا۔ اس ہی طرح پاکستان کی بھرپور کوششوں سے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کروا کر عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں بہت حد تک ہموار کرلیا۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی کے لہجہ میں بھی یکایک تبدیلی اس بات کا اشارہ ہے کہ ہندوستان دنیا بھر کو اپنا ہم نوا نہیں بنا سکا اس نے جو جنگ کی آگ کو بڑھاکایا اور اس کے میڈیا نے جو طوفان بدتمیزی مچایا ہوا ہے اس کا توڑ پاکستان نے موثر انداز میں کیا ہے۔ نریندر مودی کا بیان اور ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات نے خطے میں منڈلاتے ہوئے جنگ کے بادلوں کو ایک طرح سے چھانٹ دیا مگر کشمیر کی وادی میں جو گزشتہ عشروں سے آگ لگائی ہوئی ہے اس کو بجھانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے، وہ یہ ہے کہ بھارت پاکستان اور کشمیری مل کر ایک ایسا حل نکالیں جو برصغیر کے عوام کے لئے امن و سلامتی کا باعث ہو کیونکہ بھارت پاکستان اور کشمیر کے عوام نے گزشتہ ستر سالوں میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں وہ علاقائی جنگوں کے لئے ایدھن بن کر غربت اور افلاس کی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ خوشحالی کی زندگی گزاریں۔ اس کے لئے علاقے کی فیصلہ ساز قوتوں کو قربانی کے جذبہ کے تحت ایسے فیصلے کرنے ہوں گے اس کے لئے ہر طرف کے عوام کو باہم مل کر اپنے حکمرانوں کو مجبور کرنا ہوگا تاکہ وہ عوام کی قسمتوں کو بدلنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ یہ ہی علاقے کی سلامتی کا راز ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں