۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 430

طوفانوں کی زد میں

وطن عزیز جسے اب وطن کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ خبریں سننے کو طبیعت نہیں چاہتی، ٹیلی فون پر عزیزوں، دوستوں اور ملنے والوں سے بات کرتے ہوئے ایک احساس گناہ ہوتا ہے کہ جن حالات میں وہ زندگیاں گزار رہے ہیں ان میں ہم ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے اور جو کچھ ان پر گزر رہی ہے اس کا مداوا نہیں کر سکتے۔ 22 کروڑ انسان جس اذیت کا شکار ہیں اس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، استحصالی قوتیں جو قومیتوں، فرقوں اور لسانی بنیادوں پر جو ظلم کررہی ہیں اسے روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ ہر طرف جرائم، لوٹ مار، قتل، اغوائ، زیادتیاں، بیماریوں کی یلغار، ڈاکٹروں کی جلالیت، دوائیوں کی گرانی، اشیاءصرف کی گرانی، روزمرہ کی ضروریات کی چیزوں کی قلت اور غریب لوگوں کی بے بسی متوسط طبقے کی لاچاری ایسے اندوہناک حقیقتیں ہیں ان کے متعلق سوچ کر ہی زندگی سے زیادہ موت کی طرف رغبت ہوتی ہے مگر ان اندوہناک حالات میں اس غیر انسانی ماحول اور کروڑوں افراد جنہیں عوام کہا جاتا ہے کے درمیان ایک ایسا طبقہ بھی ہے جس کا کام ہی ان حالات کا سہارا لے کر اپنے مفادات حاصل کرنا ہے۔ ان میں زندگی کے ہر شعبے کے افراد شامل ہیں ان عالم بے بسی میں دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے والے تاجر جو ذخیرہ اندوزی کرکے غریب غرباءکا استحصال کررہے ہیں اور اشیاءضروریات کی من مانی قیمتیں وصول کررہے ہیں وہ جنہیں مسیحا کہا جاتا ہے اور اب انہیں اس لفظ کے بجائے قاتل اور ملک الموت کہنا زیادہ مناسب ہے جو مریضوں کا استحصال کرکے اپنی دولت میں رات دن اضافہ کررہے ہیں اور انہیں ذہنی اذیت سے دوچار کررہے ہیں جب تک وہ زندہ ہیں انہیں نچوڑ رہے ہیں اور مر گئے تو ان کی لاش دینے پر بھاری ٹیکس وصول کررہے ہیں۔ خصوصاً اس آفت ناگہانی نے ان کے پوبارہ کردیئے ہیں ہر شخص اور ہر بیماری پر کرونا کا ٹھپہ لگا کر مریضوں کے متعلقین کو اپنی شیطانی عمل سے ہراساں کررہے ہیں۔
ادھر نام نہاد ”خادمان قوم“ حکام ریاست اس ہنگامی حالات میں اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں، کبھی لاک ڈاﺅن کے نام پر تاجروں سے رقم وصول کررہے ہیں کہیں غریب عوام کو معمولی کاموں کے لئے رات دن پریشان کرکے مال بٹور رہے ہیں، کہیں ضروریات زندگی کی اشیاءپر کنٹرول کا نام لے کر انہیں غائب کرانے میں شریک جرم ہیں، گویا عوام نام کی چیز وہ حقیر کیڑے مکوڑے ہیں جنہیں طرح طرح سے اذیت دے کر یہ شیطانی گروہ لطف اندوز ہو رہا ہے اور ان کی بے بسی سے اپنے دلوں کو تسکین دے رہا ہے اور سب سے بڑا اور فرعون شداد اور نمرود کا طبقہ جنہیں سیاستدان کہا جاتا ہے اس دور ابتلاءمیں جب کہ ساری دنیا کے ممالک اپنے عوام کو دامے، درمے، سخنے سہولتیں فراہم کرنے کے لئے رات دن ایک کئے ہوئے ہیں۔ یہ شیطان کے چیلے، یہ ہٹلر کی ناجائز اولادیں، یہ وطن فروش میر جعفر اور میر صادق کے جانشین اپنا شیطانی کھیل کھیلانے میں مصروف ہیں۔
انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ وطن عزیز اس وقت کس نازک صورت حال سے گزر رہا ہے، چاروں طرف دشمن اسے گھیرے ہوئے ہیں، بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے اکٹھے ہو گئے ہیں۔
ہمارا دیرینہ دشمن جو ایک مرتبہ ہمیں دولخت کرچکا ہے ایک بار پھر ہماری سالمیت کو چیلنج کررہا ہے اور اس بات کے درپے ہے کہ ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنا غلام بنا لے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ طاقتیں جو نہیں چاہتیں کہ وہ واحد اسلامی ملک جو فوجی طاقت میں دنیا میں انتہائی اہم مقام رکھتا ہے جس کی فوج ساری دنیا میں منفرد حربی قوت ہے جو جذبہ ایمانی سے سرشار ہے جس کا مقصد شہادت کا حصول ہے جو اللہ کی رضا کے لئے جدال کرتی ہے۔ واحد اسلامی ملک جو ایٹمی طاقت ہے اسے یہ قوتیں ختم کرنے اور اسے کافروں کا غلام بنانے کے درپہ ہیں اس کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ خود وہ ممالک جو مذہب کے لحاظ سے اس ملک کے حامی و ناصر ہونے چاہئیں وہ یہود و نصاریٰ کے ساتھ مل کر اس کے خلاف محاذ بنا رہے ہیں۔ یہ ممالک جنہیں یہ شرف حاصل ہے کہ قبلہ وہاں ہے، وہ رسول پاک کے مقدس مقام سے سرفراز ہے، اب وہی ملک اس ملک کے خلاف ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے آج وہی ممالک اس ارض پاک کو اپنی سازشوں کے ذریعہ نیست و نابود کردینا چاہتے ہیں اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس خطہ پاک کے وہ سیاسی لیڈر اور نام نہاد مذہبی راہنما اس اسلامی ممالک کی شہہ پر یہاں مذہبی منافرت اور فرقہ واریت پھیلا کر اسے نہ صرف کمزور بلکہ خانہ جنگی کی صورت پیدا کرنا چاہتے ہیں ان بہ طینت افراد نے جو کہ آپس میں ماضی میں کتوں کی طرح ایک دوسرے پر بھونکتے تھے اور آپس میں دست و گریباں تھے اب اپنے آقاﺅں کے اشاروں پر جہاں سے انہیں مالی مفادات حاصل ہوتے ہیں اس خطہ پاک کے خلاف متحدہ محاذ بنا لیا ہے جس کا ایک اور حرف ہی ایجنڈآ ہے کہ ملک کو ایسے موڑ پر لے آیا جائے جہاں پر وہ دوسروں کا محکوم بن جائے اور اس ملک کی مسلح افواج کے خلاف مہم چلا کر اسے بدنام کیا جائے تاکہ اس کا دیرینا دشمن اپنی من مانی کارروائی کرکے اپنے مقاصد حاصل کرسکے اور یہ کام وہ دشمن طاقت کے ذریعے حاصل نہیں کر سکتا تو اب اس نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ سیاسی انتشار، عوام میں تفرقہ، اور مذہبی منافرت کو ہوا دے کر حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
جسے یہ سیاسی لیڈر، مذہبی راہنما اور دشمن ممالک کے جاسوس اور دہشت گردی اپنی کارروائیوں کے ذریعہ پورا کررہے ہیں۔ یہ عناصر اب کھلم کھلا فوجیوں پر حملے کرکے انہیں شہید کرنے کے عمل کے ساتھ پاکستان کے ان منصوبوں کو بھی سبوتاژ کررہے ہیں جس کے ذریعہ ملک خود انحصاری اور معاشی طور پر خود مختاری حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے مگر یہ ممالک نہیں چاہتے کہ یہ خطہ اک ان مقاصد کو حاصل کرکے ان اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر ان نام نہاد اسلامی ممالک کے ان عوام کی مدد کر سکے جو صدیوں سے ان ممالک کے جبر، ظلم اور عیاش حکمرانوں کے ظلم و ستم کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ نام نہاد اسلامی ملک یہودیوں، نصاریٰ اور ہندوﺅں کے ساتھ مل کر اسلام کے اس قلعہ کو مسمار کردینا چاہتے ہیں۔ جسے پاکستان کہا جاتا ہے۔
اللہ اس ملک پر اپنا کرم کرے جو اس کے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے اور جو آج ساری دنیا کے کفار اور منافقوں کی زد پر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں