گزشتہ دنوں علّامہ اقبال کے یوم ولادت پر پاکستان میں چھٹّی موضوع بحث بنی رہی اور سوشل میڈیا پر لوگوں نے زور شور سے حصّہ لیا اور وہیں اس حیرت انگیز حقیقت کا انکشاف ہوا کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد علّامہ اقبال کی سیاسی شخصیت سے بالکل ناواقف ہے اس بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ہمیں ایک سروے کرنے کا خیال آیا جس کے بارے میں آگے چل کر ذکر ہوگا۔بچپن او رطالب علمی کے زمانے میں علّامہ اقبال کو شاعر مشرق کی حیثیت سے جانا اور نا صرف ہم نے بلکہ قیام پاکستان کے بعد دوسری اور اس کے بعد کی نسلوں میں بھی علامہ اقبال کی پہچان ایک شا عر کی حیثیت سے ہی کرائی گئی۔علّامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا ،اس ایک جملے کی با زگشت گزشتہ ستّر سالوں سے سنا?ئی دے رہی ہے لیکن اس جملے کی اس خواب کی حقیقت کیا ہے یہ نئی نسل کو بتانے کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی اور چونکہ نئی نسل اس سے نا آشنا ہے تو اس حقیقت کو یقین کا درجہ دینے کے لئے ہم نے ایک سروے کیا اور ہم تین افراد نے نہ صرف نئی نسل بلکہ ان کو گمراہی میں رکھنے والے کچھ بڑی عمر کے لوگوں سے بھی سوالات کئے گئے اور نتیجہ ناقابل یقین تھا۔ہم نے سوال کیا کہ علامہ اقبال نے کب اور کہاں پاکستان کا خواب دیکھا اور تحریک پاکستان میں ان کا کردار کیا تھا۔دو تین اشخاص کے علاوہ کوئی بھی صححت جواب نہ دے سکا علاوہ اس کے کہ علامہ اقبال شاعر تھے اور ان کو شا عر مشرق کہا جاتا ہے اور انہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ اقبال کی شخصیت کا ایک پہلو ایک دینی عالم کے طور پر بھی جانا جاتا ہے ان کی شاعری کا ایک بڑا حصّہ مسلمانوں کو دین اسلام سے قریب کرنے اور ان میں بیداری پیدا کرنے اور دین سے محبّت کرنے اور اسے سمجھنے پر مشتمل ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ خاندانی پس منظر اور ان کی تعلیمی ابتدا ہے جو کہ ایک دینی مدرسے سے ہوئی چونکہ ان کے والد شیخ نور محمّد خود ایک دین دار شخص تھے لہذا وہ اپنے صاحب زادے کو صرف دینی تعلیم ہی دلوانا چاہتے تھے۔اس مقصد کے لئے ان کے والد صاحبزادے کو مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے جو کہ ایک مسجد میں درس دیا کرتے تھے۔وہاں علامہ اقبال نے قرآن شریف پڑھنا شروع کیا ایک سال کے بعد مولانا سیّدمیرحسن جو کہ ایک جیّد عالم تھے اسلامی علوم پر مہارت رکھتے تھے اور اس دور کے نامی گرامی عالم تھے دینی علوم کے علاوہ کئی اور علوم میں بھی مہارت حاصل تھی انہوں نے جب علامہ اقبال کو مولانا غلام حسن کے مدرسے میں دیکھا تو انہیں علّامہ اقبال کے چہرے پر ذہانت نظر آئی اور انہوں نے شیخ نور محمّد سے کہا کہ اپنے بیٹے کو میرے مکتب میں بھیجو اور اسے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم بھی دلواو¿ مولانا میر حسن کی بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے شیخ نور محمّد نے علّامہ اقبال کو مولانا میر حسن کے مکتب میں جانے کی اجازت دے دی اور یہاں سے اقبال کی تعلیم کا نیا دور شروع ہوا۔یہاں انہوں نے اردو فارسی اور عربی پڑھنا شروع کی ،جب مولانا میر حسن نے اسکاچ مشن اسکول میں پڑھانا شروع کیا تو علامہ اقبال کو بھی وہیں داخل کرلیا۔ مولانا میر حسن ادبیات، معقولات، لسانیات، ریاضیات کے علاوہ کئی دوسرے علوم کے بھی ماہر تھے لہذا ان کے زیر سایہ اقبال کی تربیت ہیرے کو تراشنے کے مانند ہوئی۔۔ اس کے علاوہ شاعری کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔۔ سولہ سال کی عمر میں میٹرک فرسٹ ڈویڑن میں پاس کیا اور اس پر تمغہ بھی ملا شاعری کی طلب بزھتی جارہی تھی شاگردی کے لئے اس وقت کے نامور شاعر داغ دہلوی سے درخواست کی جو قبول ہوگئی کچھ ہی دن میں داغ دہلوی نے کہا کہ اقبال کو شاگردی کی کوئی ضرورت نہیں یہ خود اپنے اندر ایک مکمل شاعر ہے۔1895 میں اقبال نے ایف اے کیا اور مزید تعلیم کے لئے لاہور آ گئے گوورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے میں داخلہ لیا اور اپنے لئے انگریزی ،فلسفہ،اور ،عربی کے مضامین منتخب کئے۔1898 میں بی اے پاس کیا اور ایم اے فلسفہ میں داخلہ لیا۔ مارچ 1899 میں ایم اے کا امتحان پورے پنجاب میں فرسٹ پوزیشن میں پاس کیا ایم اے پاس کرنے کے بعد اوربینٹل کالج میں بطور عربی ریڈر ملازمت اختیار کی اور یہ ملازمت چار سال تک چلی اس کے بعد دوسرے کالج میں انگریزی اسسٹنٹ پروفیسر مقرّر ہوئے ،اس کے بعد 1805 میں علامہ اقبال اعلی’تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔بعد میں جرمنی چلے گئے اور میونخ یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد لندن آئے ۔مئی 1908 میں جب لندن میں آل انڈیامسلم لیگ کی برٹش کمیٹی کا افتتاح ہوا تو اقبال کو مجلس عاملہ کا رکن بنادیا گیا۔ لندن سے بیرسٹری کے امتحانات پاس کرکے ہندوستان واپس آگئے اور لاہور میں وکالت شروع کردی۔اس زمانے میں مسلمانوں کے لیڈر اور ان کے ساتھ بے شمار لوگ انگریزوں کے وفادار تھے۔1911 کے آخری عشرے میں تقسیم بنگال کا فیصلہ ہوا تمام مسلمان اور انگریز بھی تقسیم بنگال کے حق میں تھے۔لیکن ہندو اس تقسیم کے سخت خلاف ہوگئے اور پرتشدّد احتجاج کے باعث انگریز نے اس تقسیم کو منسوخ کردیا اور اس مقام پر مسلمانوں کو اپنی حیثیت ہندو کے مقابلے میں کمتر محسوس ہوئی اور مسلمانوں نے اپنے آپ کو علیحدہ قوم محسوس کیا۔اور ان کی سوچ بدلنا شروع ہوئی۔اسی بارے میں لاہور موچی دروازے میں ایک احتجاجی جلسہ ہوا جہاں علامہ اقبال نے مسلمانوں کی بیداری کے لئے پرجوش تقریر کی جس نے مسلمانوں کی صفوں میں ہل چل مچادی۔انگریزوں کے خلاف احتجاج بڑھتا جارہا تھا۔ اقبال مولانا محمّد علی جوہر کی قائم کردہ خلافت کانفرنس میں اقبال صوبائی خلافت کمیٹی کے رکن بھی تھے خلافت کانفرنس کی وجہ سےمسلم لیگ کی اہمیت بھی ختم ہورہی تھی لیکن قائد اعظم کی کوششوں سے مسلم لیگ نے پھر مقام حاصل کرلیا۔ کئی گروپ بن گئے ۔1926 میں اقبال پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے سکریٹری بنادئے گئے۔جنوری 1929 میں افغانستان کے جنرل کی درخواست پر ہند کے مسلمانوں سے مالی امد ادکی اپیل کی۔ اسی سال فلسطین میں یہودیوں کے قبضے کے خلاف احتجاجی جلسہ کیا۔1930 کا سال برّصغیر کی تاریح میں اہم سال ہے 29 دسمبر 1929 کو الہہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ جلسہ ہوا جس کی صدارت قائد اعظم نے اپنی غیر موجودگی کی بناءپر علامہ اقبال کے سپرد کی۔ قائد اعظم کو لندن میں انگریز کی جانب سے پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کرنا تھی یہاں اقبال نے وہ تاریخی خطبہ دیا جو خطبہءالہہ آباد کے نام سے مشہور ہوا اور جس میں ہندوستان کے اندر ایک آزاد مسلم ریاست کا تصوّر پیش کیا گیا جو آگے چل کر تحریک پاکستان کا باعث بنا یہی علامہ اقبال کا خواب تھا۔اقبال کی نگاہ ایک بالکل علیحدہ اسلامی مملکت کو تو دیکھ رہی تھی اس کے با وجود وہ اس وقت تک ہندوستان کی تقسیم نہیں چاہتے تھے ان کا خیال تھا کہ ہندوستان کے اندر ہی ایسی ریاستیں بنادی جائیں کہ وہاں رہنے والی اکثریت اپنے مذہب اپنی ثقافت اور اپنے طرز سے آزاد زندگی گزا رسکے۔لیکن بعد کے حالات سے یہ ثابت ہوگیا کہ بغیر علیحدگی ایسا ممکن نہیں ہے۔ دوسری اور تیسری گول میز کانفرنس میں علامہ اقبال کو بھی انگریزوں نے مدعو کیا۔لنا وہ ان دونوں کانفرنس سے بددل ہوگئے کیوں کے وہ مسلمانوں کے لئے جیسی ریاست چاہ رہے تھے ان کانفرنس میں اس کا کوئی زکر نہیں تھا۔بلکہ وہ تو ہندوستان کے اندر صوبوں کی ایسی خود مختاری کے قائل تھے جہاں مرکزی حکومت کا کوئی تصور نہ ہو۔یہ وہ دور تھا جب مسلمان کئی گروپوں میں بٹ چکے تھے اور کوئی بھی یہ فیصلہ نہیں کرپارہا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہو گا یا آئندہ کے لئے کیا کائحہ عمل بنایا جائے سخت بے چینی اور انتشار کا عالم تھا۔قائداعظم مایوس ہوکر لندن چلے گئے۔ ایسے میں اقبال نے ہمّت نہیں ہاری اور مسلم لیگ کوسنبھالے رکھا۔حالات کچھ سنبھل جانے پر اقبال اور ان کے کچھ مخلص ساتھیوں نے قائد اعظم کو واپس آنے پر اصرار کیا لہذا قائد اعظم واپس آئے اور 4 مارچ 1934 کو مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے 6مئی 1936 کو قائد اعظم بذات خود علّامہ اقبال سے ملنے جاوید منزل پہونچے اور ان کو مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کا رکن بننے کی دعوت دی۔12 مئی کو اقبال دوبارہ مسلم لیگ پنجاب کے صدر منتخب ہوئے۔28 مئی 1937 کو علامّہ اقبال ایک خط میں قائد اعظم کو لکھتے ہیں کہ اسلامی شریعت کے گہرے اور دقیق مطالعے اور طویل غورو فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہونچا ہوں کہ معاشی مسائل کا حل صرف اسلامی آئین کا نفاذ ہے اگر اس آئین کو کماحقہ سمجھ کر نافذ کردیا جائے تو کم از کم ہر ایک کا حق معیشت محفوظ ہوسکتا ہے لیکن اس ملک میں جب تک ایک آزاد مسلم ریاست یا مسلم ریاستیں معرض وجود میں نہیں آئیں گی اسلامی شرعت کا نفاذممکن نہیں ہوسکتا۔ سالہا سال سے یہ میرا عقیدہ ہے اور میں اب بھی اس کو مسلمانوں کی روٹی اور ہندوستان کے امن و امان کا بہترین حل سمجھتا ہوں کہ مسلمان ایک الگ ریاست قائم کریں اور اس میں اسلامی شریعت کو نافذ کردیا جائے۔ممتاز عالم د ین مولانا سیّد ابوالحسن ندوی سے 1937 میں ایک ملاقات میں فرمایاکہ،،جو قوم اپنا ملک نہیں رکھتی وہ اپنے مذہب اور تہذیب کو بھی برقرار نہیں رکھ سکتی دین و تہذیب حکومت و شوکت سے ہی زندہ رہتے ہیں اس لئے الگ مملکت ہی مسلم مسائل کا واحد حل ہے اور یہی اقتصادی مشکلات کا حل بھی ہے۔علّامہ اقبال نے کوئی خواب نہیں دیکھا تھا بلکہ جیتی جاگتی آنکھوں اور پورے ہوش و حواس میں پاکستان کا تصوّر 1930 میں الہہ آباد میں مسلم لیگ کے جلسے کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا ۔قیام پاکستان میں علّامہ اقبال کے کردار کو بھلایا نہیں جاسکتا۔قائداعظم اقبال کی قابلیت اور علم سے بہت متاثّر تھے اور اہم معاملات میں علامہ اقبال سے مشورہ ضرور کرتے تھے تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے بعد دوسری اہم شخصیت میں علّامہ اقبال کا نام آتا ہے۔
1,491