یاد رہے کہ جب آپ بہت بڑے بڑے چوروں پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کریں اور ایسے چور جو عرصہ دراز سے ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں پیش پیش ہوں۔ جنہوں نے اپنی اولادوں کے ساتھ ملک کے پورے سسٹم کو یرغمال بنا رکھا ہو تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے کیا ہماری اُن خفیہ ایجنسیوں اور اداروں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ بڑے پیمانے پر چور بازاری جاری و ساری ہے؟ کیا اس وقت وہ تمام ایکشن جن کے ذریعہ زرداریوں اور شریفوں نے ملکی مفادات کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا، اُن خفیہ اداروں کی نظروں سے پوشیدہ تھے؟ جو دنیا بھر کی بہترین ایجنسی ہونے کا تمغہ اپنے سینوں پر سجائے پھرتے ہیں۔ کیا کبھی انہوں نے سوچا کہ کس بُری طرح سسٹم کو یرغمال بنایا جارہا ہے۔ حکومتی مشنری کو کیسے اپنے اشاروں پر نچایا جا رہا ہے۔ کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ ہمارے خفیہ ادارے اور ہماری بیوروکریسی اس تمام کرپشن میں اپنا حصہ وصول کرتی رہی لیکن بعدازاں جب پاکستان لہولہان ہو گیا اور شریفوں اور زرداریوں کی بدنامی اس حد تک بڑھ گئی کہ وہ خفیہ ہاتھ جو پاکستان کی اصل طاقت کا سرچشمہ ہیں، سر جوڑ کر بیٹھ گئیں کیونکہ اتنی بڑی فوج کو پالنا بھی کوئی مذاق تو نہیں چنانچہ عمران خان پر نظر کرم پڑ گئی کہ تن دھن ایک سچا اور ضدی انسان سامنے لایا جائے جو کرپشن کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہو جائے مگر اسے بھی بھاری اکثریت سے جتوانے کے بجائے یہاں بھی گندا کھیل کھیلا گیا تاکہ عمران خان بھی ہاتھوں سے نہ نکلے اور وقت پڑنے پر پُرانے کھلاڑیوں کو بھی فعال کیا جا سکے۔ موجودہ حالات مکمل عکاس ہیں اس گندی سیاست کی جس کا شکار آج کے وزیر اعظم عمران خان نظر آتے ہیں۔ کیا مجال تھی سپریم کورٹ یا ثاقب نثار کی کہ گزشتہ حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتا اور کیا وجہ تھی کہ نواز شریف کے چاہنے والے دُم سادھ کر بیٹھ گئے اور سابقہ روایت کی طرح سپریم کورٹ پر دھاوا نہیں بولا۔ ہر ذی شعور جانتا ہے کہ وہ کون سی قوت تھی جس نے میاں برادران جیسے فرعونوں کو دُم دبا کر بیٹھنے پر مجبور کیا یا وہ کون سی قوتیں ہیں جن کی وجہ سے اس بار پاکستان کھپے یا نہ کھپے کا نعرہ دم توڑ چکا ہے اور ایک زرداری سب پر بھاری ہونے کے باوجود سر جھکائے اپنی فریاد لے کر راولپنڈی چلے گئے اور نیب پنجاب میں اپنے کیس کی تاریخیں بھگت رہے ہیں۔ کون تھا جس نے زرداری کی ہوا نکال دی۔ یقیناً یہ وہی نامعلوم افراد ہیں جو وقت پڑنے پر ہوا بھر دیتے ہیں اور پھر نظریہ ضرورت کے تحت ہوا نکال بھی دیتے ہیں مگر یہ خطرناک کھیل ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرچکا ہے۔ اب یہ سمجھنا ضروری ہو گیا ہے کہ زیادہ عرصہ تک یہ شطرنج کی بازیاں اب نہیں چلیں گی، کچھ بھی کہیں مگر آج قوم پہلے سے زیادہ باشعور ہے۔ دنیا بھر کے ممالک ایک ایسی صورتحال کی جانب بڑھ رہے ہیں جو ایک بند گلی میں جا کر ختم ہوتی ہے۔ آنے والا وقت دُنیا بھر کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ پاکستان چہار جانب سے صرف گھرا ہوا ہی نہیں ہے بلکہ بدترین اندرونی سازشوں کا شکار ہے۔ عمران خان ایماندار ہیں یا نہیں۔ سوال یہ نہیں، بلکہ سمجھدار ہونا ضروری ہے۔ میری نظر میں عمران خان نے اپنے وزیر خزانہ کو ہٹا کر سنگین غلطی کی ہے اور یوں انہوں نے اپنے لئے سیاسی دباﺅ کو اس قدر بڑھا لیا ہے کہ آنے والے چند ہفتہ کسی بڑی تبدیلی کی نوید سنا رہے ہیں۔ میں کئے گئے فیصلوں کو عمران خان کی حماقت سے تعبیر اس لئے کروں گا کہ کچھ بھی ہے۔ عمران خان کے وفادار، عمران خان کے وفادار ہیں اور وہ جیسے بھی ہوں۔ انہی کو لے کر آگے بڑھنا ضروری تھا۔ جو معاشی پریشانیاں ہمارے سامنے ہیں وہ تو سب جانتے ہیں کہ سابقہ دور کا نتیجہ ہیں۔ ہم یہ کیوں بھول بیٹھے کہ ہمارے مخالفین ہر حربہ استعمال کریں گے کہ وہ اپنی لوٹی ہوئی دولت کو بچا سکیں۔ ہونا تو چاہئے تھا کہ عدالتی کارروائیوں یا نیب کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلانے کے بجائے سعودی عرب کی طرح سب کو بند کرکے دولت وصول کی جاتی اور ایک ایک کرکے سب کو ملک بدر کر دیا جاتا مگر یہ تو جب ہوگا جب بندوق والی سرکار ملک سے گندگی کو صاف کرنے میں سنجیدہ ہوگی۔ یہاں تو ملک کے حالات کو بگاڑنے میں سیاستدانوں سے زیادہ کردار غیر سیاسی اکائیوں کا ہے جو آج تک نئے نئے تجربات کے ذریعہ ملکی سلامتی کو داﺅ پر لگا رہی ہیں اور آنے والا نیا تجربہ نہ جانے کون سا نیا گل کھلاتا ہے۔ یہ دیکھنے کے ہم بھی منتظر ہیں۔ مگر یاد رہے کہ اب وقت نہیں ہے۔ سیاہ و سفید سب جانتے ہیں اور اب اگر ملک کو قائم رکھنا ہے تو انصاف کے تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔ وگرنہ گریٹر پنجاب بھی ضرور بنے گا اور پاکستان کو تقسیم در تقسیم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہمیں خوابوں سے باہر آ جانا چاہئے اور حقیقت کی آنکھ سے ہر صوبہ کی حقیقی اکائیوں کو اوپر لانا چاہئے وگرنہ بندوق کی نوک پر فیصلہ اب شاید نہ ہو سکیں۔ لوگ بہت ڈر چکے، بہت مر چکے مگر اب پاکستانی عوام زندہ لاش بن چکے ہیں اور بے حسی انسان کو درندہ بنا دیتی ہے۔ پھر نہ وردی رہے گی اور نہ بندوق۔ بس نام رہے گا اللہ کا۔ جو غائب بھی ہے، حاضر بھی، جو منظر بھی ہے، ناظر بھی
اٹھے گا عدل حق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے۔
×—–×—–×
اُٹھا رہا ہے جو فتنے مری زمینوں میں
وہ سانپ ہم نے ہی پالا ہے آستینوں میں
کہیں سے زہر کا تریاق ڈھونڈنا ہوگا
جو پھیلتا ہی چلا جارہا ہے، سینوں میں
کسی کو فکر نہیں قوم کے مسائل کی
ریا کی جنگ ہے بس حاشیہ نشینوں میں
قصور وار سمجھتا نہیں کوئی خود کو
چھڑی ہوئی ہے لڑائی منافقینوں میں
یہ لوگ اس کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں
کہ اقتدار رہے اُن کے جانشینوں میں
یہی تو وقت ہے آگے بڑھو خدا کے لیے
کھڑے رہو گے کہاں تک تماش بینوں میں
536