۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 338

فتنہ

ہم کہ خود کو ایک تہذیب یافتہ مسلمان قوم، اور ایک ایسے ماننے والے کہلاتے ہیں جس نے ساری دنیا کو رواداری کا سبق دیا، جس مذہب نے سب سے پہلے انسانیت کو مقدم قرار دے کر لوگوں کے دل جیت لئے، ہم نے جو خطہ زمین حاصل کیا اسے امن کا گہوارہ اور سب کے لئے امن و آتشی کی زمین قرار دیا، ہم نے کہا کہ یہ ملک تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لئے ایک نمونہ ہو گا جہاں ہر فرد کو اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہو گا مگر اس زمین پر کیا ہو رہا ہے؟ ایک تحریر ملاحظہ ہو۔ گورو پرمہانس آشرم مندر کی مسماری پر کیا لکھا جائے۔
بی بی سی وائس آف امریکہ، دی ہندو، نیویارک ٹائمز اور الجزیرہ ٹی وی کے علاوہ دنیا کے اہم میڈیا پر کہا گیا کہ ”انتہا پسند مسلمانوں نے پولیس کی موجودگی میں جمعیت علمائے اسلام کے جھنڈے اٹھا کر جس طرح مندر کو آگ لگائی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مذہبی منافرت اور اقلیتوں کے تحفظ میں پاکستان مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے“۔ اب نوید ہو کہ یہی چاہتے تھے وہ پاکستان کو عمران خان کو مکمل تباہی سے دوچار کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ ان سے پوچھئے کہ کس علام نے انہیں بتایا ایک تاریخی مندر مسمار کرکے آپ جنت کے حق دار ہو جائیں گے اور اس کے سردار بن جائیں گے؟ مگر ان سب باتوں کا جواب محض معترضینکو کافر بنا کر ہر بات رد کردی جائے گی۔ اس حادثے کے ذمہ دار ہر اس امن پسند اور درد مند فرد کو جو اس ناحق کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، اپنے نشانے پر لے لیتے ہیں اور مذہب کا نام لے کر اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ یہ نام نہاد مذہبی جماعت جس کی سربراہی ایک فقہ کررہ اہے اپنے مدارس کے غریب نوجوانوں کو مسلح تنظیموں کے طور پر استعمال کر کے پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے، اگر کوئی فرد اس سچ کو سامنے لائے تو اس پر مدارس کو بدنام کرنے کا الزام لگا کر گردن زدنی قرار دے دیتا ہے۔ اس ہی فتنہ پردار کے باعث کرک میں پانچ شہیدوں کے جنازوں نے کہرام برپا کردیا جہاں مندر مسمار کیا گیا، مائیں روتی پیٹی رہیں، جنہوں نے غربت کے باعث بچوں کو مدرسے میں داخل کرایا تھا۔ علاقہ کے سمجھدار اور صاحب ضمیر افراد کہتے ہیں کہ اس تاریخی مندر کی مسماری آج نہیں ہوئی بلکہ اس کی تیاری برسوں سے چل رہی تھی اور ذہن سازی ہو رہی تھی۔ مندر کے آس پاس آشرم کی زمین پر لوگوں نے قبضے کرکے گھر بنائے ہوئے تھے اور سو مرلے کا مندر مختصر ہو کر چار مرلے کا رہ گیا تھا۔ اور یہی چار مرلے لوگوں کی نظر میں تھے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جمعیت علمائے اسلام کے جھنڈے اٹھا کر دنیا کو اپنی اوقات دکھا دی۔ کیا مولانا فضل الرحمن کہہ سکتا ہے کہ اس کے کارکن سیاسی تربیت یافتہ ہیں؟ اور اس حادثے کے بعد اسے اپنے دعوے سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ کیا اب موجودہ حکومت اور پارٹی اس ظلم کے خلاف میدان میں آئے گی؟ اور کیا پولیس حکام کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرکے لوگوں کے آنسو پونچھے گی مگر یہ قطعی نہیں ہو گا، محض ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دے دیا گیا ہے جو کبھی گرفتار نہیں ہوں گے۔ کچھ افراد کی گرفتاری سے بات نہیں بنے گی یہ ایک مکمل ذہن سازی ہے کیونکہ یہ ہندوستان نہیں ہے جہاں کا وزیر اعظم گائے کو مارنے والوں کو تحفظ دیتا ہے، ان کا دعویٰ تو یہ ہے کہ پاکستان اسلام کی اصل شناخت کے ساتھ بنا ہے مگر یہ صرف دعویٰ ہی دعویٰ ہے، عمل نہیں ہے۔ یہاں نہ بابائے قوم کے قول کے مطابق اقلیتوں کو مکمل آزادی ہے، اور نہ ان کے حقوق۔ اس مندر کے مسلمانوں کے ہاتھوں تباہی کے بعد اب پاکستان ایک بار پھر دنیا بھر کی نظروں میں ایک ایسا ملک بن کر سامنے آیا ہےں جہاں اقلیتیں غیر محفوظ اور انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اور پھر گرے لسٹ سے بلیک لسٹ کی مراجعت اور سب کچھ کون کررہا ہے اور کس کے اشارے پر کررہا ہے۔ یہ کوئی راز نہیں ہے۔
ہم ہندوستان کو اجودھیا کی مسجد مسمار کرنے کا الزام لگاتے ہیں ہم اسرائیل پر انگلیاں اٹھاتے ہیں کہ بیت المقدس پر قبضہ کر لیا ہے مگر ہم خود کیا ہیں؟ مگر سب سے فکر انگیز بات یہ ہے کہ یہ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر سیاست کرنے والا فرد کیا سازش کررہا ہے۔ اس نے اپنے مدارس میں طالب علم تیار کئے ہیں یہ دراصل ایک منظم سازش ہے، ان کو باقاعدہ جنگ کی تربیت دی جاتی ہے جس طرح افغانستان میں طالبان نے فوجوں سے مقابلے کے لئے اسی طرح پاکستان میں بھی یہ افراد اسلحہ چلانے اور فوج سے مقابلہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ ان کی وردی بھی ہندو انتہا پسند لیڈر آر ایس ایس کی طرح ہے اور ان کی ہی طرح ان کی تربیت ہو رہی ہے یہ مسلح افراد جنہیں ”کفار“ سے مقابلے کے لئے تیار کیا گیا ہے، بھارتی اور اسرائیل کے ایجنڈے کے تحت ایک طرف پاکستان میں فوج کے خلاف اور ایران اسرائیل جنگ میں ایران کے خلاف تخریب کاری میں استعمال ہوں گے کیونکہ ان کی تربیت ہی یہ ہے کہ تمہارے علاوہ ہر فرقہ واجب القتل ہے اور اب پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی ان کو حکومت کے خلاف استعمال کررہی ہیں جیسے کے نواز شریف نے ملک سے باہر جانے کے لئے فضل الرحمن کا دھرنا استعمال کیا، یہ سیاسی جماعت اسے سرمایہ فراہم کرتی ہیں اور اس طرح یہ تنظیم ملک کی سلامتی کے لئے ایک انتہائی خطرناک ہتھیار بن چکی ہیں اگر ہندوستان سے جنگ ہوتی ہے تو یہ ملک کے اندر تخریب کاری کریں گے اور افراتفری پھیلائیں گے۔ اس طرح اب یہ کرائے کے فوجی بن کر ابھرے ہیں، اگر اس وقت ان کا تدارک نہ کیا گیا تو کل کو یہ افغانستان کے ان طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان کی جیسی صورت حال پیدا کریں گے جو کہ ان مدارس میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں جو فضل الرحمن کے تحت قائم ہیں۔
اس شخص کو عرب ممالک سے بھی مالی امداد ملتی ہے کہ ہندوستان اسرائیل کے لئے بھی یہ ایک بہترین ہتھیار ہے جو مذہب کا نام لے کر ملک میں خانہ جنگی کراسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ فوج میں بھی رخنے ڈال سکتے ہیں اس شخص کی ہمت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ یہ پاکستانی فوج سے براہ راست ٹکر لینے کی بات کرتا ہے اب وقت آگیا ہے کہ اس فتنے کو ختم کردیا جائے اور اس کے اربوں روپیہ کے اثاثوں کو ضبط کرکے مدارس کو بند کیا جائے جہاں تخریب کار بنائے جارہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں