تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 428

محافظان گلستان نے چمن کو خود ہی اجاڑا

مجید اچکزئی کو جس طرح سے عدالت میں رہائی حاصل ہوئی یا اس سے پہلے شاہ رخ جتوئی کے بارے میں نظام انصاف پر سوالات کھڑے ہوئے، اب معاشرے میں میڈیا کے سامنے سب نمایاں ہو رہی ہیں۔ پرانے زمانے میں اس طرح کی تو باتیں چھپ بھی جاتی تھیں ان کے اثرات نیچے تک نہیں پہنچ پاتے تھے۔ معاشرے میں جب سے بھی بے انصافی کی کہانیاں سامنے آنی شروع ہوئی ہیں تو اس کے اثرات معاشرے پر تیزی سے نیچے آنا شروع ہو رہے ہیں۔
موٹروے کا واقعہ بھی جس طرح میڈیا پر آنا شروع ہوا ہے اس کے ساتھ مختلف علاقوں میں بچے، بچیوں کے ساتھ زیادتیوں کی داستانیں بھی کھل کر سامنے آرہی ہیں۔ اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ طاقتور کو اس کے تمام مظالم کے باوجود قانون سزا دینے سے معذور ہے، اور لاچار ہے تو نیچے اس کے اثرات آنا شروع ہو گئے اور اب یوں معاشرے میں قانون شکنی بڑھتی جارہی ہے۔ قانون کا خوف بھی نہ ہونے کے برابر ہے، ہر طبقے میں ان کے درجے کے مطابق قانون شکنی ہو رہی ہے اور ان کے جرم کو ان کے مطابق قانون پر عمل کرنے والے چھپا دیتے ہیں۔ ایک طرف نا اہلی ہے، دوسری طرف بدعنوانی ہے، تیسری طرف قانون شکنی ہے جو معاشرے کے ہر طبقے میں مختلف مدارج میں سرائیت کر گئی ہے۔ جرم کرنے والے کو معلوم ہے کہ وہ کتنا بڑا جرم کر لے وہ قانون کی گرفت سے بچ جائے گا کیونکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ بڑے جرم کرنے والے کو قانون کے مختلف طریقوں سے نبردآزما ہونے کے بعد بالآخر قانون کے ہاتھوں سے بچ کر نکل جاتا ہے۔
جب معاشرے کے طاقتور حکمرانوں میں نیچے والوں کو قانون کی کمزوریوں کا آنکھوں دیکھا حال نظر آتا ہے وہ یہ دیکھتے ہیں یہ نا اہل حکمران ظالم بھی ہیں اور متعصب بھی ہیں تو وہ بھی اپنے اپنے درجے پر یہ ہی اوصاف کے حامل ہونے کی جدوجہد میں لگ جاتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب قانون سے مبرا ہیں، عام لوگوں میں بھی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ معاشرے کے طاقتور صاحب اقتدار کے لئے الگ قانون اور غریب اور قانون پسند طبقات کے لئے الگ قانون ہیں۔ اس ہی طرح جب بڑے بڑے سیاستدان اپنے سے بالادست حکمرانوں سے ڈیل سازباز کرکے قانون کی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان سے نچلے درجے کے سیاستدانوں کی بھی یہ ہی کوشش ہوتی کہ کسی بھی طرح جائز یا ناجائز طریقوں سے وہ بھی سیاستدانوں کے اس بڑے درجے میں پہنچ جائیں جہاں پر وہ بھی اپنے سے طاقتور سیاستدانوں یا صاحب اختیار حکمرانوں سے سازباز کرکے ان سے بھی ڈیل حاصل کرلیں۔ یہ طریقے درجہ بہ درجہ نچلے درجے کے سیاستدانوں میں اختیار کرکے قانون کے ہاتھوں سے بچنے کے لئے نئے نئے طریقے اختیار کئے جاتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں میڈیا پر جس طرح سے واقعات کھل کر سامنے آرہے ہیں یہ سب اس ہی کے اثرات کے تحت ہو رہا ہے۔ معاشرے سے قانون کا خوف ختم ہو گیا ہے، عام لوگ جب یہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح طاقتور قانون شکنی کررہا ہے اور معاشرے میں اعلیٰ مقام کا حامل ہوتا جارہا ہے جس کے اثرات سے اس کے نچلے درجے کے طاقتور حکمران کے لئے بھی راستہ ہموار ہوتا ہے وہ اپنے سے اوپر والے یا اپنے سے زیادہ طاقتور کو قانون شکنی کا مرتکب ہوتے دیکھتا ہے تو اس میں بھی قانون شکنی کے اثرات پیدا ہوتے ہیں جو آہستہ آہستہ درجہ بہ درجہ نچلے درجے کے طاقتور حکمران میں بھی پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے پھر یہ طاقتور حکمرانوں سے ہوتی ہوئی سیاستدانوں تک چلی جاتی ہے یوں قانون شکنی کے اثرات بیوروکریسی کے سب سے اعلیٰ درجے میں بھی پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ افسران کے اعلیٰ عہدوں سے ہوئے ہوئے یہ اثرات نچلے درجے تک جب پہنچتے ہیں تو وہ عوام سے بھی ایسے مطالبات کرتے ہیں جو قانون کے مطابق نہیں ہوتے۔ عام آدمی سب دیکھتا ہے۔
میڈیا پر پچھلے دور حکومت میں یہ آیا کہ آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کو جب یہ اطلاعات حاصل ہوئیں کہ اس وقت کے صدر پاکستان بہت سے ناجائز دھندوں میں ملوث ہیں اور اس طرح کی بہت سے معلومات ان کی حکومت کے عہدے داروں کے بارے میں میڈیا پر گردش کررہی ہیں تو انہوں نے سیاست دانوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی غرض سے آصف زرداری کو دباﺅ میں لانے کے لئے ان کی اور ان کے ساتھی حکمرانوں کے ثبوت کے لئے فائیلیں تیار کروا کر آصف زرداری سے ملاقات کا فیصلہ کیا تو آصف زرداری جو خود بھی زیرک سیاستدان تھے انوہں نے بھی اس ملاقات کے لئے تیار ہونا شروع ہوا یوں ملاقات والے دن جب اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف ان تمام سیاستدان کی بدعنوانیوں کی فائیلیں لے کر آصف زرداری کے ایوان صدر پہنچے تو صدر پاکستان نے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور ان کے ہاتھوں میں فائیلوں کو دیکھ کر مسکراتے اور پھر ان سے کہا ”آرمی چیف صاحب آپ کے بھائیوں کا آسٹریلیا میں کاروبار کیسا چل رہا ہے؟“ اشفاق پرویز کیانی کا چہرہ فق ہو گیا وہ فوراً معاملات کی تہہ تک پہنچ گئے۔ اور اپنے بھائیوں کے بارے یں آصف علی زرداری سے الفاظ سن کر سکتے میں آگئے، آصف علی زرداری کے پاس بھی ان کے بھائیوں کے متعلق اس ہی طرح کی معلومات تھیں جس طرح کی معلومات سیاستدانوں کے بارے میں آرمی چیف کے پاس ہیں۔ یعنی تم میرے عیب چھپاﺅں میں تمہارے عیب چھاﺅں گا۔
جب اس طرح کے قصے سوشل میڈیا کے ذریعہ عام لوگوں تک پہنچنے لگے تو وہ بھی قانون کی دھجیاں اڑانے کے موقعوں کی تلاش میں رہیں گے اور قانون کے خوف نہ ہونے پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو جائیں گے۔ جب کہ وہ پرانی نسل سے یہ بھی سنتے رہے ہوں گے کہ کس طرح ایوب خان نے اقتدار سویلین سے چھین کر ملک میں فوجی مداخلت کا آغاز کیا اور قانون کی پاسداری کرنے والے سادہ لوح وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کا مذاق اڑا گیا جب ان کو اقتدار سے نکالا گیا تو وہ کرایہ کے مکان میں رہنے لگے۔ اور کس طرح ضیاءالحق نے سویلین وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے اقتدار چھین کر انہیں سولی پر لٹکایا اور کس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ساتھی سیاستدانوں کے خلاف بدسلوکی کے مرتکب ہوئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سویلین سیاستانوں میں بدعنوانیوں کا آغاز کرنے والے بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے موجودہ حاکم آصف علی زرداری تھے جنہوں نے سیاستدانوں میں بدعنوانیوں کے نئے نئے طریقے اختیار کئے۔ ہر طرح کے سیاستدانوں نے اپنے اپنے دور اقتدار میں مالی بدعنوانیاں کرکے بیرونی ملکوں میں اربوں روپے کی مالیت کے اثاثے بنائے۔ جس میں زرداری خاندان کے ساتھ ساتھ شریف خاندان کا نام بھی آتا ہے یوں بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی چوہدری برادران، جہانگیر ترین کے ساتھ موجودہ پی ٹی آئی کے بہت سے سیاستدانوں کے نام کے ساتھ ساتھ اسفند یار ولی خان، مولانا فضل الرحمن، کا نام تو مذہبی سیاستدانوں میں آتا ہے جس میں ہمارے ملک میں مذہبی پارٹیوں کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ فوج کے اعلیٰ عہدے داروں کے بھی نام اکثر بیشتر میڈیا میں سامنے آتے ہیں، موجودہ دور میں جنرل عاصم سلیم باجوہ کا نام بھی انہی لوگوں میں آرہا ہے کہ انہوں نے اپنے عہدے پر رہتے ہوئے ناجائز طور پر اپنے اثاثے بنائے۔ یوں قانون طاقتور کے سانے بے بس دکھائی دیتا ہے جب عام لوگوں میں تاثر ہو جائے تو معاشرے کا حال وہی ہو گا جیسا کہ حالات کھل کر سب کے سامنے آرہے ہیں۔ انوار احمد خان ہوں یا مجید اچکزئی ہوں یا شاہ رخ جتوئی ہوں جب یہ لوگ قانون سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں یہ لوگ میڈیا پر ان کو وکٹری کا نشان دکھا کر قانون کو چڑا رہے ہوں تو موٹر وے کا واقعہ ہونا، قصور میں بچوں کے ساتھ بدفعلی کے واقعات تو خودبخود جنم لیتے رہیں گے۔ جب جاگیردار، وڈیروں اور سرداروں کی نجی عدالتیں ہوں گی ان میں قانون شکنی کرکے نجی جیلیں بے گناہوں سے بھری ہو، جرگے، ماﺅں، بہنوں کو کاروکاری کریں، راﺅ انوار جیسے معصوم نقیب اللہ سمیت سینکڑوں لوگوں کو قانون کی وردی پہن کر قتل کریں اور رہائی حاصل کریں تو عام لوگ یا تو نقیب اللہ بن جائیں یا موٹروے کے مجرم عابد یا شفقت۔
محافظان گلستان نے خوب کام کیا
چمن کو خود ہی اجاڑا خزاں کا نام کیا
صبا اکبر آبادی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں