ایک عرب سردار خاموشی سے اپنی بیٹی کو ویرانے میں لے گیا۔ زمیں پر گڑھا کھودنا شروع کردیا۔ شدید گرمی تھی، بچی پوچھتی ”ابا میں مدد کردوں“ وہ خاموشی سے اپنا کام کرتا رہا، گڑھا بڑا ہو گیا، بچی کو اس میں کھڑا کردیا۔ بیٹی سمجھی کہ یہ بھی کوئی کھیل ہے، وہ گڑھے کو بھرتا رہا، بیٹی ہنستی رہی، جب وہ گردن تک مٹی میں دب گئی تو اس نے فریاد کرنا شروع کی ”بابا میرا دم گھٹ رہا ہے، بابا میرا دم گھٹ رہا ہے“ وہ مٹی ڈالتا رہا۔ یہاں تک کے اس بچی کی آوازیں بھی اس مٹی میں دفن ہو گئیں۔ یہ وہ دور تھا جب زندہ بچیوں کو ہی زمیں میں دفن کردیتے تھے بلکہ ان بچیوں کے ساتھ تہذیبوں کو بھی دفن کردیا جاتا، جہاں پر انسانیت کو بھی زمین بوس کردیا جاتا تھا۔ اب سے چودہ سال پہلے اللہ نے ایک ایسی ہستی دُنیا میں پیدا کی جس کو بعد میں اُمّی لقب دیا۔ اس اُمّی لقب پانے والے نے دنیا کی تعلیم کے بغیر وہ علم کے موتی پروئے کہ اب تک دنیا کے کسی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ کا علم کی ان حدود تک پہنچنا ممکن نہیں۔ اُمّی لقب نے اس ہی طرح اپنی علمیت کو اپنے پیرائے میں سمو کر اس کی عملی تفسیر پیش کی۔ اُمّی لقب پانے والے نے مکہ کی اس سنگلاخ سرزمین کے لوگوں میں جن کے دل اس قدر پتھر تھے جو اپنی پیدا ہونے والی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، ایسا بنا دیا کہ ایک انسان کا خون دوسرے انسان پر حرام ہوگیا اور تہذیب کی انتہائی پستیوں سے نکال کر ان کو نہ صرف انسان بنایا اور اعلیٰ صفات پیدا کردیں، ان کو برگزید بندوں میں شمار کیا۔ سب صحابہ اکرامؓ حضور کی خدمت میں حاضر تھے۔ دین کے بارے میں گفتگو جاری تھی، ایک صحابیؓ نے پوچھا کہ کیا ہمارے زمانہ جہالت کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے، جواب ملا ”ہاں“۔ پھر پوچھا کہ وہ گناہ بھی جو ہم نے اپنی بیٹیوں کو زمین میں زندہ دفن کردیتے تھے، فرمایا ”تم اپنے دل سے توبہ کرکے اپنے گناہوں سے اللہ کی ذات سے معافی مانگ لو تو“۔
تاریخ کے اوراق یہ بتاتے ہیں جب ان عربوں نے صدق دل سے توبہ کرکے معافی مانگی تو اللہ نے ان کو نہ صرف معاف کردیا بلکہ ان کو دین دنیا کے اعلیٰ سے اعلیٰ مرتبہ تک پہنچا دیا۔ صحابہ اکرامؓ کے دور میں ان کی سلطنت تقریباً تمام دنیا تک پھیل گئی، سلطنت، تہذیب، تمدن، شائستگی کا گہوارہ بن گئی۔ چودہ سو سال بعد آج کے دور کی تاریخ رقم ہو گئی۔ بتایا جائے گا کہ اس مذہب کے ماننے والے لوگوں نے ایک مملکت حاصل کی جس کو پاکستان کا نام دیا گیا۔ اس پاکستان کے قیام کے بعد سے وہاں وہ تمام علامتیں ختم ہونا شروع ہو گئیں جن کی بنیادیں انہوں نے مذہب کےنام پر قائم کی ہوئی تھیں۔ وہاں وہی دور جہالت کی علامتیں واضح طور پر سامنے آتی چلی گئیں۔ ریاست میں عام لوگوں وہ بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں ہو رہے تھے جس کی ایک عام انسان کو ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس ہی معاشرے سے ایک انسان کھڑا ہوا جو کہ دنیاوی تعلیم سے بے بہرہ تھا جو اپنے نبی کا صحیح پیروکار تھا۔ جس نے تن تنہا اپنی ذات سے عام لوگوں کو وہ سہولتیں فراہم کیں جس کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے۔ عوام کو صحت کی سہولتیں ریاست فراہم کرتی ہے۔ اس کے ساتھ تمام بنیادی سہولتیں بھی فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
عبدالستار ایدھی نے وہ سہولتیں عوام تک پہنچانے کا بیڑا اٹھایا اس نے ایک ایمبولینس پر ڈرائیوری کرکے اس خدمت کا آغاز کیا۔ ایک صبح فجر کی نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد پہنچے، دروازے پر نمازیوں کی بھیڑ نظر آئی، قریب جا کر دیکھا کہ ان کے درمیان میں ایک نوزائیدہ بچی پڑی ہوئی ہے جس کو سب ناجائز سمجھ رہے تھے، وہاں کے مولوی صاحب نے حکم دیا اس بچی کو بھی دفن کردیا جائے۔ تاریخ پھر دور جہالت میں لے گئی۔ عبدالستار ایدھی نے کہا کہ یہ بچی ناجائز نہیں اس کے والدین ناجائز ہیں اب یہ بچی میری ہے، پھر ایسے ناجائز والدین کی اولادیں عبدالستار ایدھی کے پاس آتی چلی گئیں ان کے والد کا نام عبدالستار ایدھی رکھا جاتا رہا انہوں نے تقریباً 22 ہزار ناجائز والدین کی اولاد کو اپنی اولاد سمجھ کر پالا۔ عبدالستار ایدھی کے دنیا سے رُخصت ہونے پر موجود انسانیت ہی یتیم نہیں ہوئی بلکہ ایدھی صاحب کے 22 ہزار بچے بھی یتیم ہوگئے۔ جب گھر کے بزرگوں کو دربدر کردیا جاتا ان کے لئے ایدھی صاحب کے دروازے کھلے ہوتے، وہ ان بزرگوں کو وہ ہی عزت و احترام دیتے جیسے وہ ان کے اپنے والد بزرگوار ہوں۔ وہ بزرگ بھی ایدھی گھر میں آکر ایسا محسوس کرتے جیسے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے کماتے ہوئے گھر میں وہ رہے ہوں حالانکہ ان کی ساری زندگی کی کمائی تو اس اولاد پر خرچ ہو چکی تھی جس نے بڑھاپے میں گھر سے دربدر کردیا۔
ایدھی صاحب نے معاشرے کی ٹھکرائی ہوئی بہو، بیٹیوں کے لئے اپنے گھر کو بابل کا انگنا بنایا ہوا تھا۔ کوئی بھی خاتون اپنے اپنے شوہروں، اولادوں، بھائیوں یا رشتہ داروں کے ظلم و ستم سے بچ کر ایدھی صاحب کے بابل کے انگنا میں آجاتی۔ ایدھی صاحب ان کے باپ بن کر سرپرست بن کر ان کو سایہ فراہم کرتے۔ بیمار بچوں کو جن کی بیماری کا علاج ان کے والدین نہیں کروا سکتے تھے ان کے مسیحا بھی ایدھی صاحب تھے۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان بیماروں کو لاتے، ان کو نہلاتے دھلاتے ان کا علاج کرواتے۔ انہوں نے تقریباً اٹھارہ سو ایمبولینس کا فلیٹ بھی بنایا ہوا تھا، ساتھ میں ایک چھوٹا سا جہاز ایمبولینس بھی موجود تھا۔ ایدھی صاحب خود کپڑوں کے ایک جوڑے میں مہینوں زندگی گزار دیتے اس ہی ایک جوڑے میں ان کو سپرد خاک کردیا گیا۔ یہ ہی جوڑا ان کا کفن بنا۔ عبدالستار ایدھی اس خطہ زمین پر سپرد خاک کردیئے گئے جس کو ایک نعرہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا۔ ”پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ“ آج ریاست پاکستان نے اپنے عوام کے لئے وہ سہولتیں فراہم نہ کیں جو کہ اس کی ایک ریاست کی حیثیت سے ذمہ داری تھی۔ ایدھی صاحب نے جب محسوس کیا کہ ریاست عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کررہی تو خود انہوں نے یہ ذمہ داری اٹھالی۔
کائنات کی جہالت کے اندھیرے ختم کرنے کے لئے اللہ نے اب سے چودہ سو سال پہلے اپنے سب سے پیاری ہستی کو نبی بنا کر بھیجا اس ہستی نے دنیا بھر میں اس کا نام اور پیغام پہنچا کر دنیا کے در و دیوار کو روشنی سے منور کردیا۔ پھر تقریباً چودہ سو سال کے بعد اس اُمّی لقب کے عاشق کو پاکستان میں دور جہالت کو ختم کرنے کے لئے معمور کیا۔ عبدالستار ایدھی نے جو کچھ خدمات انجام دیں، وہ صرف صرف سنت پیغمبر پر عمل پیرا ہو کر پوری کیں، یوں موجودہ دور میں ان کی خدمات نہ صرف پاکستان کے لئے بلکہ تمام عالم انسانیت تک کے لئے وقف تھیں۔ دنیا کو یہ پیغام پہنچانا کہ وحشت کے اس جنگل میں بھی ایسے عظیم انسان پیدا ہوتے ہیں۔ جن کی بدولت تمام انسانیت میں پیغام محبت عملی خدمات کے ذریعہ پہنچایا جائے۔ یہی بائیس ہزار بچوں کو یتیم کرنے والے عبدالستار ایدھی کا مشن تھا۔
عبدالستار ایدھی
وجود و عدم کی حدوں سے بری
تخیل کی دیکھی ہے چارہ گری
سخاوت میں اندازِ حاتم عیاں
توکل میں آئینہ بوذری
جبیں پر تقدس کا ایک پاکیزہ نور
نگاہوں میں شان ہنر پردری
متانت شرافت محبت خلوص
بس اک ذات میں جمع ہر برتری
تصوف تفکر تدبر وقار
محبت عنایت کرم گستری
تصور کی محفل میں موجود ہے
ہنوز ایک تصویر شفقت بھری
غم انسانیت رکھا اپنے دل میں
تعصب کے خاروں سے دامن بری
سب کا درد دل میں چھپائے رکھا
خموشی نجانے زباں آوری
بہ الفاظ دیگر یہ ہے ابن صبا
سراپائے عبدالستار ایدھی