تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 537

مداوا

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک قافلہ ہمارے بستی میں سفر کررہا تھا کہ ایک جگہ ڈاکوﺅں نے زبردست حملہ کرکے اس قافلہ کا سارا سامان لوٹ لیا۔ قافلہ والوں نے بہت منت سماجت کی لیکن ڈاکوﺅں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس قافلہ میں حکیم لقمان بھی شامل تھے۔ ہم جیسے مسافروں نے ان سے بھی درخواست کی کہ آہ و زاری کا تو ان ظالموں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا، آپ ہی سمجھائیے کہ شاید آپ کی نصیحت کا ان پر ہی کچھ اثر ہو۔
حکیم لقمان نے کہا کہ نصیحت کرنا وہاں مناسب ہوتا ہے جہاں نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت ہو۔ سنگ دل پر ہو نہیں سکتا نصیحت کا اثر
مہر کردی اللہ نے اُن کے دلوں پر اور کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ
پچھلے دنوں ہم نے بھی اس بستی کا رخ کیا جس کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس میں انسان کم اور دوسروں کا حق چھیننے والے بے تحاشہ پائے جاتے ہیں جب ہم نے اس سرزمین کو چھوڑا تھا اس وقت اس قسم کی صورت حال نہیں تھی۔ ایسا کبھی کبھی شاذ و نادر ہوتا تھا۔ ہمارا اپنا ادارہ بھی تھا جہاں پر ہم نے ایک طویل عرصہ تک اس کو بنانے سنوارنے میں گزارا۔ اس ادارے میں اپنا خون پسینہ بہانے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے خانوادے کے ساتھ مل کر ملک میں علم ادب کی بھی خدمت میں اپنا بیشتر وقت گزارتے رہے۔ ہمارا خاندان جو علم ادب کے حوالے سے معاشرے میں ایک مقام رکھتا تھا۔ ساتھ ساتھ اس وقت کے واحد الیکٹرونک میڈیا میں بھی اس کا بہت بڑا رول تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے اپنے ادارے میں رہ کر کوشش کی۔ ہماری ذات سے ادارے کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور ادارہ ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔ اس طرح ہمارا ادارہ ہماری ایئرلائن پی آئی اے ترقی کی منازل بہت تیزی سے طے کرتی رہی۔ ہم نے اپنے خاندانی اثر و رسوخ کو کسی منفعت کے لئے کبھی استعمال نہیں کیا۔ تقریباً 33 سال بڑی محنت سے گزارنے کے بعد جب ادارے سے کچھ حاصل کیا جاتا ہم نے اپنی ریٹائرمنٹ سے تقریباً سات سال پہلے قبل از وقت فراغت حاصل کرکے کینیڈا میں سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح اپنی جوانی کے بہترین ادوار گزارنے کے بعد جب جوانی کی رخصتی کا وقت آیا تو ہم کینیڈا منتقل ہو گئے۔ اور ایک نئے سرے سے محنت مزدوری کا سلسلہ شروع ک ردیا اور ساتھ ساتھ صحافت کے شعبہ میں بھی کام کرنا شروع کردیا اس طرح تقریباً گزشتہ آٹھ سال سے کینیڈا اور امریکہ کے دو اخباروں میں ہر ہفتہ کالم نگاری بھی شروع کردی۔ اس دوران ہمارے پرانے ادارے ایئرلائن سے ملنے والے ٹکٹ بھی ملتے رہے مگر ہم اس مراعات کا فائدہ اٹھانے سے قاصر رہے۔ اس کی وجہ یہ بھی کہ ہماری معاشی صورت حال اتنی بہتر نہیں تھی کہ اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔
گزشتہ دو سالوں سے ٹکٹ جمع کرکے ہم نے اپنے خاندان کے چار افراد کے لئے ٹکٹ جمع کرنے کے بعد ہم نے اپنی بیٹی کے لئے بھی ٹکٹ کی سہولت حاصل کرنے کے لئے ریٹائرمنٹ سیل سے رابطہ کیا تو انہوں نے ہماری بیٹی کا ٹکٹ بھی استعمال کرنے کی اجازت دے دی تو ہم نے فوراً پاکستان جانے کا پروگرام بنا لیا کیونکہ وہاں ہماری بہن اپنی بیماری سے نبردآزما تھی۔ مگر جیسے ہی ہم نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو ہمیں اطلاع دی گئی کہ ہماری صاحبزادی کا ٹکٹ منسوخ کردیا گیا ہے جس کی غلطی سے اجازت دی گئی تھی۔ اب اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ ہم اپنی صاحبزادی کے لئے پی آئی اے سے نقد ٹکٹ خریدیں۔ گزشتہ سات سال سے ہماری جمع شدہ پینشن سے اس وقت مہنگا ترین ٹکٹ خریدا جو کہ تقریباً چار لاکھ پچاس ہزار روپے کی مالیت کا تھا۔ یوں ہماری جمع شدہ پنشن لٹ گئی۔ اس طرح بڑی جدوجہد کے بعد اس ٹکٹ کو بھی اسی پرواز پر کنفرم کروایا گیا کیونکہ ہمارے باقی ٹکٹ تو ہم کینیڈا سے ہی کنفرم کروا چکے تھے۔ اس طرح واپسی کی پرواز والے دن ہم وقت سے بہت پہلے ایئرپورٹ پہنچے اور اپنے سامان کو جمع کروانے کے بعد بورڈنگ کارڈ حاصل کرکے ہم انتظار گار میں جا کر پرواز کی روانگی کا انتظار کرنے میں وقت گزارنے لگے۔ پرواز بھی مزید لیٹ ہونے لگی اور ہماری بے چینی بڑھتی رہی۔ تقریباً چھ گھنٹے انتظار کے بعد پرواز کی روانگی کا اعلان سننے کے بجائے ایک علیحدہ اعلان یہ سنا کہ جو کہ ہماری فیملی کے بارے میں تھا، ہمیں بتایا گیا کہ آپ کو بمعہ سامان جہاز سے اتار رہے ہیں کیونکہ ہمارے ٹکٹ ایئرلائن کے دیئے ہوئے ٹکٹ ہیں۔ اس کے باوجود کپتان کی سفارش پر دو افراد کو جن کے ٹکٹ بھی کنفرم نہیں تھے ان دونوں افراد کو لے کر وہ پرواز بھی روانہ ہو گئی۔ اور ہم اپنے پرانے ساتھیوں سے دہائی دیتے رہے کہ ہماری ملازمت اور بچوں کی تعلیم کا بہت بڑا نقصان سے بچانے میں ہماری مدد کریں اور ہمیں بھی ان دو افراد میں شامل کرکے اس پرواز میں روانہ کردیا جائے اس وقت ہمیں اندازہ ہوا کہ اپنوں کے دیئے ہوئے دکھ کس قدر زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ یہ وہ پرانے ساتھی تھے جن کے ساتھ ہم نے ایک وقت بہت سے موقعوں پر بھرپور مدد کی مگر انہوں نے ہمارے اس برے وقت میں مدد دینے سے صاف انکار کردیا۔ اس موقع پر ہمیں ہمارے دیرینہ کرم فرما اعجاز مظہر سے رجوع کرنا چاہا تو معلوم ہوا کہ وہ شہر میں موجود نہیں ہیں۔ اعجاز مظہر سے ہمارے خاندانی مراسم اس زمانے سے تھے جب وہ ترقی کے ابتدائی مراحل میں تھے۔ اور ہمارے خاندان خدمات کے وہ بے تحاشہ قائل تھے۔ بادل ناخواستہ ہم نے پی آئی اے کی دوسری پرواز فوراً ہی ٹکٹ کنفرم کروا کر کینیڈا میں نوکری کے حکام کو آگاہ کیا کہ ہماری پرواز نئی تاریخوں میں کنفرم کی گئی ہے جب ہم نئی پرواز والے دن ایئرپورٹ پہنچے تو ہمیں تسلی دی گئی کہ آپ کو سب پر فوقیت دینے کی ہدایت وصول ہو چکی ہے مگر ہوا اس کے برعکس سوائے ہمارے سب کو اس پرواز پر روانہ کردیا گیا۔ ہمارے خاندان نے کینیڈا میں اپنی اپنی نوکریوں کو خطرے میں محسوس کرکے نئے سرے سے دوسری ایئرلائن میں کنفرم نقد ٹکٹ خریدنے کی جدوجہد شروع کردی یوں تقریباً چودہ ہزار ڈالر کے ٹکٹ دوسری ایئرلائن پر مہنگے داموں خرید کر جب ہم کینیڈا پہنچے تو اطلاع دی گئی کہ ہمیں نوکری سے وقت پر نہ پہنچے پر فارغ کردیا ہے۔ اس طرح ہم اس بستی سے اور اپنے ادارے سے لٹ پٹ کر جب گھر پہنچے تو پچھلے 33 سال کی محنت سے جمع ہماری پنشن بھی لٹا آئے تھے۔ تقریباً چودہ ہزار ڈالر جو کریڈٹ کارڈ پر ادا کئے تھے ان کی ادائیگی بھی تقریباً بیس تیس سال میں ہی مکمل ہو پائے گی۔ اب ہم بھی اس قافلہ کے مسافروں کی طرح کسی حکیم لقمان کی تلاش میں ہیں جو ہماری وکالت کر سکے ہمارے ساتھ تو جو جو ستم ہوا کہ ہمیں لوٹنے والے بھی غیر نہیں تھے۔ یہ خیال آتا ہے کیا میں اپنے ہی خلاف مقدمہ قائم کروں کہ میں نے ایسے ادارے میں 33 سال خدمات کے جواب میں اس طرح کے سلوک کا شکار ہوا۔ مجھے تو ایک ہی امید نظر آتی ہے کہ شاید میری آواز ہمارے ادارے کے سی ای او تک پہنچ جائے جو کہ ہمارے خاندان کے دیرینہ کرما فرما ہیں وہ ہی ہمارے ساتھ انصاف کرنے میں مدد کرسکیں۔ وہ ہیں جناب اعجاز مظہر، وہی ہمارا مداوا کرسکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں