قیام پاکستان کے بعد جب دونوں ملکوں میں آمد رفت پر کافی پابندیاں تھیں اس ہی زمانے میں فراق گورکھپوری پاکستان کے دورے سے واپس ہندوستان پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے پاکستان میں ان کی زبردست آﺅ بھگت کے حوالے سے سوالات پوچھے اور وہاں کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ ان سے ایک صاحب نے سوال پوچھا کہ وہاں کے عام لوگوں کا کیا حال ہے؟ فراق صاحب نے جواب میں کہا کہ وہاں کے لوگ بہت اداس اور دکھی ہیں، سوال پوچھا گیا کہ ان کی ادایسی کی وجہ کیا ہے؟ فراق صاحب نے نہایت بھولے پن سے جواب دیا اب وہاں ہندو تو رہے نہیں، لڑیں کس سے۔ فراق صاحب کے اس جواب سے ہمارے ملک کے ایک طبقہ کی ذہنیت یا مائنڈ سیٹ کے بارے میں عکاسی نظر آتی ہے۔
آخر کار میاں نواز شریف کو ان کی مہلک بیماری کا بیرونی ملک علاج کروانے کی اجازت کے ساتھ وہ رکاوٹ بھی دور ہو ہی گئی جس کے سبب وہ گزشتہ ایک ہفتے سے اپنی لندن روانگی ملتوی کئے ہوئے تھے۔ ملک کے مقتدر ادارے آپس میں ایک ایسے عدالتی فیصلے کے ذریعہ ایک منصفانہ نتیجے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے کہ تمام فریقین نے اطمینان کا سانس لے کر اپنے آپ پر اور پوری قوم پر سے ایک بھاری بوجھ اتارنے میں کامیاب ہو گئے اس موقع پر ملک کے تمام سیاسی حلقوں کو بشمول مقتدر اداروں کو اس ماحول کو پروان چڑھا کر ملک کو مسائل کی دلدل سے نکلنے کی جدوجہد مسلسل کرنی ہوگی۔
عمران خان کو بھی ایک سیاسی فریقی ہوتے ہوئے ان غلطیوں کو نہیں دہرانا چاہئے جو ماضی میں نواز شریف نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد اختیار کیں جس کی وجہ سے اب وہ اس حال تک پہنچے۔ نواز شریف کی بیماری نے ان میں پناہ تبدیلیاں پیدا کردی ہیں، ماضی کے مقابلے میں ان میں بہت مثبت تبدیلیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ یوں نواز شریف ایک مدبر کے طور پر نمایاں ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ اس دور میں نواز شریف کا رویہ میں بہت واضح تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ یہ تبدیلیاں وقت نے ان کے اندر پیدا کی ہیں، وہ وقت بھی تھا جب نواز شریف ضیاءالحق کے زمانے میں اپنی مسلم لیگ کو تقسیم کرکے ایک نئی مسلم لیگ نواز کے نام سے بنانے پر مجبور ہوئے اور محمد خان جونیجو سے بے وفائی کر بیٹھے، کچھ عرصہ بعد پھر جب ان کو وزیر اعظم بنوایا گیا۔ تو کچھ ہی دن کے بعد ان کے تعلقات اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان سے خراب ہونا شروع ہو گئے، ایک عرصہ تک ان دونوں صاحب اقتدار میں آپس میں کشیدگی بڑھتی رہی۔ آخر میں جنرل وحید کاکڑ نے مداخلت کرکے دونوں کو فارغ کروا دیا۔ ان کی حکومت زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ اس طرح خود تو ڈوبے صنم ساتھ غلام اسحاق خان کو بھی لے ڈوبے۔
جب بے نظیر کو اس وقت صدر فاروق لغاری نے حکومت سے فارغ کرکے دوبارہ انتخاب کے نتیجے میں نواز شریف کا اقتدار کے لئے حلف دلوایا تو وہ وزیر اعظم بنتے ہی ان کے تعلقات نہ صدر سے بلکہ اس وقت کے آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ سے خراب ہوتے چلے گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان کی حکومت کو خطرہ پیدا ہو گیا۔ قدرت نے اس موقع پر میاں نواز شریف کی مدد کی یوں آصف نواز کی قدرتی موت واقع ہو گئی۔ اس طرح ان کی حکومت فوج کے ہاتھوں ختمہونے سے بچ گئی۔ ان کے تعلقات اپنے دور کے چیف جسٹس سے بھی بہت خراب رہے ان کی مسلم لیگ سے وابسطہ لوگوں نے چیف جسٹس کے دفتر پر حملہ کردیا۔ اس طرح چیف جسٹس کو اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش ہوتی رہیں۔
آصف نواز کے انتقال کے بعد انہوں نے ایک نہایت شریف آرمی چیف جرنل جہانگر کرامت کے لئے بھی بہت مشکل وقت دیا۔ ان کے اس رویہ سے وہ اپنی عزت بچا کر اپنے عہدے سے سبک دوش ہو گئے۔ ان کی جگہ پر نواز شریف نے جرنل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا۔ اس موقع پر فوج نواز شریف کے اس طرح کے رویہ سے نالاں تھی کہ جو کسی کو بھی اپنے ساتھ ملا کر چلنے کو تیار نہیں تھے۔ فوج میں ان کے خلاف بہت غصہ پیدا ہو چکا تھا۔ پرویز مشرف نے آرمی چیف بنتے ہی فوج سے نواز شریف کے تعلقات بہتر بنانے کی بہت کوششیں کیں مگر اپنے بھائی شہباز شریف اور چوہدری نثار کے سمجھانے کے باوجود ان کے رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو پرویز مشرف ان کے والد چوہدری شریف کو بھی درمیان میں لائے۔ مگر ہر طرح کی کوششوں کے باوجود نواز شریف کے رویہ میں کسی قسم کی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آئے۔ ان کے اس رویہ کے مخالف نہ صرف فوج تھی بلکہ اس وقت کی ان کی سیاسی جماعتیں بھی ان کے رویہ سے بہت شاکی تھے۔ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی جو فطرتی طور پر بہت مختلف جماعتیں تھیں وہ بھی نواز شریف کی مخالفت میں بہت آگے تھیں۔ فوج سے بھی یہ اپنے تعلقات بہتر کرنے کے لئے تیار نہیں تھے جس کی وجہ سے ان کے بارے میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ یہ پڑے ہوئے بم پر لات مارنے کے عادی ہیں۔ اس طرح انہوں نے پھر ایک بار بم پر لات مار دی اور پرویز مشرف کو برطرف کرنے کا اعلان کردیا۔ پرویز مشرف اس وقت کولمبو سے کراچی کی طرف رواں دواں تھے۔ فوج نے اس موقع پر مداخلت کرکے نواز شریف کو معزول کرکے اقتدار پرویز مشرف کے حوالے کردیا۔ پرویز مشرف نے اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف سے وہ سلوک نہیں کیا جو ضیاءالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کیا بلکہ مشرف نے نواز شریف کو ان کی خواہش کے مطابق جدہ روانہ کردیا۔
نواز شریف نے اس سیاسی شعور کا مظاہرہ کرکے پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی۔ جس پر ان کی مخالف جماعتوں نے ان پر بڑی تنقید کری۔ نواز شریف نے اپنے اس فیصلہ سے ملک میں ایک بہت بڑی مثبت تبدیلی کی نشاندہی کردی۔ پرویز مشرف سے اپنے دیرینا تنازع کو ختم کردیا۔ اس طرح ملک میں اس افہام و تفہیم کے دور کا آغاز ہو گیا۔ ملک جس طرح کے مسائل میں مبتلا ہے اس کا علاج یہ ہی ہے ملک میں سب اپنے اپنے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے سے تعاون کرکے ملک کو اس انتشار سے نکالا جائے جس کی وجہ سے ملک کی سلامتی کو خطرات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ اب عمران خان کو اپنے احتساب کے خول سے باہر نکل کر ملک کے تمام طبقوں کے ساتھ چل کر ایسی فضا قائم کرنی ہو گی کہ ملک اس مشکل دور سے نکل کر استحکام کی جانب رواں دواں ہو سکے۔ عمران خان نے انتقام کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
ملک کی دوسری سیاسی قوتوں کو شہباز شریف، آصف زرداری سمیت مفاہمت کی جانب قدم ملا کر ساتھ ساتھ چلنا ضروری ہو گیا ہے۔ اس طرح کا ماحول وقت کی ضرورت ہے۔ آنے والا وقت نئی نسل کے لئے امن و سلامتی کا دور ثابت ہونا چاہئے۔ اس موقع پر اختلاف بھلا کر ملک کی یکجہتی کے لئے مفاہمت کا ایک ایسا دور ہو جہاں ایک دوسرے کو حریف سمجھنے کا سلسلہ ختم ہو اور مفاہمت کا دور ثابت ہو۔
